لاہور: احتساب عدالت کے جج محمد ساجد علی نے صاف پانی کمپنی ریفرنس میں لیگی رہنما راجہ قمر السلام سمیت 16 ملزمان کی بریت کا تحریری فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا گیا کہ نیب صاف پانی پروجیکٹ میں کوئی خلاف ورزی یا لاقانونیت ثابت نہیں کرسکا
فیصلے میں کہا گیا کہ صاف پانی منصوبہ میں جو بھی تبدیلی کی گئی متعلقہ کمیٹیوں کی سفارشات اور منظوری سے کی گئی، جن کامقصد منصوبے کو مزید بہتر بنانا اور عوام کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہچانا تھا، جبکہ متعلقہ کمیٹیوں نے بھی اس بات کو یقینی بنایا کہ منصوبے میں تبدیلیوں سے پروجیکٹ کی اصل لاگت میں اضافہ نہ ہو۔
احتساب عدالت نے فیصلے میں کہا کہ شہبازشریف کے داماد علی عمران اور بیٹی رابعہ عمران کے ملکیتی پلازے کا ایک فلور کرائے پر صاف پانی کمپنی کو دیا گیا، علی ٹریڈ سینٹر کا تیسرا فلور اوپن بڈنگ (شفاف نیلامی) کے ذریعے صاف پانی کمپنی کو دیا گیا، پراسکیوشن کا الزام ہے کہ فلور کا کبھی قبضہ نہیں لیا گیا اور ایڈونس کرایہ دیا گیا، لیکن حقائق کے مطابق صاف پانی کمپنی نے نہ صرف باقاعدہ قبضہ لیا بلکہ نئی انتظامیہ نے بھی کچھ تبدیلوں کے ساتھ معاہدہ برقرار رکھا۔
یہ بھی پڑ ھیں : احتساب عدالت نے فرزانہ راجہ کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے
فیصلے کے مطابق یہ بات بالکل واضح ہے کہ منصوبے میں کوئی لاقانونیت ، رولز کی خلاف ورزی یا مالی فوائد سامنے نہیں آئے، سابق سی ای او وسیم اجمل نے اختیارات کا نا جائز استمعال نہیں کیا اور شریک ملزمان کو کوئی غیر ضروری فائدہ نہیں دیا۔
عدالت نے قرار دیا کہ علی عمران کی کمپنی اور صاف پانی کے درمیان معاملہ معاہدے کی قواعد و ضوابط پورے نہ کرنے کا تھا، لیکن دونوں کے درمیان کیس نیب قوانین کے زمرے میں نہیں آتا، نامزد ملزمان نے بریت کی درخواستیں نیب ترمیمی آرڈیننس کی روشنی میں دائر کیں، ریکارڈ کے مطابق صاف پانی کمپنی ریفرنس نیب کے جرائم میں نہیں آتا۔
نیب پراسکیوٹر کے مطابق نیب ترمیمی آرڈیننس زیر سماعت مقدمات پر اثر انداز نہیں ہوسکتا، لیکن درحقیقت دوسرے نیب ترمیمی آرڈیننس کی سیکشن چار کے تحت زیر التوا کیسز اس کے دائر اختیار میں آتے ہیں، لہذا عدالت قمر اسلام راجہ،وسیم اجمل ،خالد ندیم ،ظہور احمد سمیت 16 ملزمان کی بریت کی درخواستوں کو منظور کرتی ہے، تاہم شہباز شریف کی بیٹی اور داماد سمیت دیگر دو ملزمان کو اشتہاری برقرار رکھتی ہے۔