عدالت نے تمام سیاسی جماعتوں کو صدارتی ریفرنس میں نوٹس جاری کردیئے
اسلام آباد : سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ بار کی اسلام آباد میں جلسے روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کرلیا، عدالت نے تمام سیاسی جماعتوں کو صدارتی ریفرنس میں نوٹس جاری کردیئے، لارجر بینچ کیس کی سماعت 24 مارچ کو کرے گا۔
سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ بار کی اسلام آباد میں جلسے روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ وکیل سپریم کورٹ بار نے کہا کہ رولز کے مطابق 25 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش ہوگی۔ تحریک عدم اعتماد پر فیصلے تک اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی نہیں ہوسکتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ یہ اسمبلی کا اندرونی معاملہ ہے۔ بہتر ہوگا کہ اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے۔ عدالت نے دیکھنا ہے کہ کسی کے حقوق متاثر نہ ہوں۔ عدالت ابھی تک اسمبلی کارروائی میں مداخلت پر قائل نہیں ہوئی۔ عدالت صرف چاہتی ہے کہ کسی کے ووٹ کا حق متاثر نہ ہو۔ یہ تمام نقاط اسپیکر کے سامنے اٹھائے جاسکتے ہیں۔
فاروق ایچ نائیک نے اسمبلی اجلاس طلب کرنے کا نوٹس عدالت میں پیش کر دیا۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اسپیکر نے آئین کی خلاف ورزی کرکے آئین شکنی کی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جن پر آرٹیکل 6 لگا ہے پہلے ان پر عمل کرا لیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 17 سیاسی جماعتیں بنانے کے حوالے سے ہے، جس کے تحت حقوق سیاسی جماعت کے ہوتے ہیں۔ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے۔ آرٹیکل 92 دو کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے مزید ریمارکس دیئے کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کیس میں عدالت ایسی آبزرویشن دے چکی ہے۔ سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے۔
عرفان قادر نے کہا کہ عدالت کے سامنے آج اپیل نہیں ہماری متفرق درخواست ہے۔ ہم نے درخواست دی تھی کہ اس کیس میں ضابطوں کی خلاف ورزی ہوئی۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم نے آپ کا حق سماعت ختم نہیں کیا۔ آپ کے ابتدائی دلائل سے کچھ سوالات آئے وہ نیب سے پوچھے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بار چاہتی ہے کہ ارکان جس کو چاہیے ووٹ ڈالے۔ بار اگر زیادہ تفصیلات میں گئی تو جسٹس منیب اختر کی آبزرویشن رکاوٹ بنے گی۔ سوال یہی ہے کہ ذاتی چوائس پارٹی مؤقف سے مختلف ہو سکتی ہے یا نہیں؟
وکیل سپریم کورٹ بار کا کہنا تھا کہ تمام ارکان اسمبلی کو آزادانہ طور پر ووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہیے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین کی کس شق کے تحت رکن اسمبلی آزادی سے ووٹ ڈال سکتا ہے۔
وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 91 کے تحت ارکان اسپیکر اور دیگر عہدیداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ بار کا کیس آئین کی کس شق کے تحت ہے یہ تو بتا دیں؟ وکیل سپریم کورٹ بار کی جانب سے آرٹیکل 66 کا حوالہ دیا گیا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 66 کے تحت ووٹ کا حق کیسے مل گیا؟ آرٹیکل 66 تو پارلیمانی کارروائی کو تحفظ دیتا ہے۔ آرٹیکل 63 اے کے تحت تو رکن کے ووٹ کا کیس عدالت آسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تو بار کے وکیل ہیں آپ کا اس عمل سے کیا تعلق؟ بار ایسوسی ایشن عوامی حقوق کی بات کرے۔ وکیل سپریم کورٹ بار نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد بھی عوامی اہمیت کا معاملہ ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ آئین کے تحت سب سے مرکزی ادارہ ہے۔ پارلیمنٹ کا کام آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔ پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔ 0آرٹیکل 63 اے پارٹیوں کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ کسی کو ووٹ دینے سے روکا نہیں جاسکتا۔ عوامی مفاد میں کسی صورت سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ تحریک عدم اعتماد سے بار کو کیا مسئلہ ہے؟
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ کیا تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہونی چاہیے؟ چیف جسٹس نے کاہ کہ بار بار پوچھ رہے ہیں سندھ ہاؤس میں کیا ہوا؟ عدالت نے صرف آئین پر عمل کرانا ہے؟ سپریم کورٹ بار کے وکیل تیاری سے نہیں آئے، بار کو سندھ ہاؤس پر بات کرتے ہوئے خوف کیوں آرہا ہے؟
سپریم کورٹ نے کہا کہ بار کو عدم اعتماد کے حوالے سے کیا تحفظات ہیں؟ بار کے وکیل کو سن چکے ہیں اب آئی جی اسلام آباد کو سنیں گے۔ آئی جی صاحب کیا دفعہ 144 لگ گئی ہے؟
آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ اسلام آباد میں پہلے سے ہی دفعہ 144 نافذ ہے۔ ریڈ زون کے اطراف تک دفعہ 144 کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق 5 بجکر 42 پر 35 سے 40 مظاہرین سندھ ہاؤس پہنچے۔ آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ مظاہرین جھتے کی صورت میں نہیں آئے تھے۔ دو اراکین اسمبلی سمیت 15 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ جے یو آئی نے بھی سندھ ہاؤس جانے کی کوشش کی۔ بلوچستان ہاؤس کے قریب جے یو آئی کارکنان کو روکا گیا۔ سندھ ہاؤس واقعے پر شرمندہ ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ ہاؤس واقعہ پولیس کی اتنی ناکامی نظر نہیں آتی۔ اصل چیز اراکین اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا ہے۔ ڈی چوک پر ماضی قریب میں بھی کچھ ہوا تھا، جس کے تاثرات سامنے آئے۔ ہفتے کو کیس سننے کا مقصد سب کو آئین کے مطابق کام کرنے کا کہنا تھا۔ دیکھیں گے سندھ ہاؤس حملے کی تحقیقات کہاں تک پہنچی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پولیس اور متعلقہ اداروں کو احکامات جاری کردیے ہیں۔ عوام کو اسمبلی اجلاس کے موقع پر ریڈزون میں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی۔ آئینی تقاضوں کو پورا کرنے نہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ سپریم کورٹ سے کوئی حکم امتناع نہیں مانگ رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ صدارتی ریفرنس کی وجہ سے اسمبلی کاروائی متاثر نہیں ہوگی۔ کسی کو ووٹ کا حق استعمال کرنے سے روکا نہیں جاسکتا۔ ووٹ شمار ہونے پر ریفرنس میں سوال اٹھایا ہے۔ ووٹ ڈالنے کے بعد کیا ہو گا یہ ریفرنس میں اصل سوال ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سندھ ہاؤس میں واقعہ پر اٹارنی جنرل کا موقف خوش آئند ہے۔ توقع ہے حکومت بھی سندھ ہاؤس واقعے کی مذمت کریگی۔ تمام سیاسی جماعتیں زمہ داری کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ بعض غیر ذمہ داران سیاست میں آکر ایسی کوئی حرکت کرسکتے ہیں۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ پولیس سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے وکلاء ریفرنس پڑھ کر تیاری کریں۔