او آئی سی کا مقصد تھا اسلامی اقدار کا تحفظ کیا جائے : عمران خان
اسلام آباد : او آئی سی اجلاس اس وقت ہورہا ہے جب ہم اپنا قومی دن منارہے ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ہم نے فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کو ناکام کر دیا۔ ہم تقسیم ہیں، ہم ڈیڑھ ارب آبادی ہیں، لیکن ہماری آواز کوئی نہیں سنتا۔ کوئی حقیقی کام نہیں ہو رہا۔ کشمیریوں کا تشخص، جغرافیائی ہیت، سب تبدیل ہو رہا ہے، کوئی بات نہیں ہو رہی۔
وزیراعظم عمران خان نے او آئی سی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی آمد پر ان کا مشکور ہوں۔ او آئی سی اجلاس اس وقت ہورہا ہے جب ہم اپنا قومی دن منارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن قرار دیا۔ میں خوش ہوں کہ پہلی مرتبہ یہ تسلیم کیا گیا کہ اسلامو فوبیا اس نفت انگیز چیز ہے۔ نائن الیون کے بعد اسلامو فوبیا کی سوچ میں اضافہ ہوا۔ نیوزی لینڈ کی مسجد میں نمازیوں کو شہید کیا گیا۔ اسلامو فوبیا کے نام پر ہونے والے واقعات پر دنیا خاموش رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کے عمل سے زیادہ متاثرہ مسلمان مغرب میں رہتے ہیں۔ ایک کھلاڑی کی حیثیت سے زیاد عمر مغرب میں گزاری۔ ہر دہشت گردی کے واقعی کے بعد الزام فوری اسلام پر لگایا جانے لگا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حیران ہوں کہ کسی مذہب کو دہشت گردی سے کیسے جوڑا جاسکتا ہے۔ آپ گلی محلے میں چلنے والے کسی بھی شخص کیلئے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ شدت پسند ہے۔ مذہب کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام کا تو کسی طور پر بھی دہشت گردی سے تعلق نہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو دہشتگردی کے ساتھ کیسے جوڑا جاسکتا ہے۔ اسلام کا کوئی رنگ نہیں اسلام صرف ایک ہی ہے۔ اسلام صرف ایک ہے جس کی تعلیم رسولؐ نے دی۔ جس نے نیوزی لینڈ کی مسجد پر حملہ کیا وہ عام شخص نہیں تھا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ کچھ حکمران اعتدال پسندی کا درس دیتے رہے جس سے ظاہر ہوا اسلام کا کوئی رنگ بھی ہے۔ سربراہان مملکت اپنے آپ کو اعتدال پسند مسلمان کہلا رہے ہیں۔ جب آپ اپنے آپ کو اعتدال پسند مسلمان کہلاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کہیں اسلام میں مسئلہ موجود ہے۔ اسلام سب کے لیے ایک ہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر معاشرے میں جدت، انتہا پسندی، ہر طرح کے اثرات موجود ہوتے ہیں۔ جب تک آپ اپنی غلطیوں کا احساس نہیں کرتے آپ بہتر نہیں ہو سکتے۔ ہم نے اپنے نبیؐ کو جیسے مقام دیا، اس طرح مغربی دنیا میں حضرت عیسیٰ علیہ سلام کو مقام نہیں دیا گیا۔ گستاخانہ خاکوں پر ردعمل نہ دینے سے واقعات دہرائے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 25 سال پہلے سیاست کا آغاز اس وقت کیا جب اسلاموفوبیا کے واقعات عروج پر تھے۔ اپنے ملک کو دیکھا کہ اسلام کے نام پر بنا ملک کس طرف جارہا ہے۔ ہمارے بچے ریاست مدینہ کے بارے میں نہیں جانتے۔
ان کا کہنا تھا کہ قانون کی حکمرانی نہ ہونا غریب ممالک کیلئے سب سے اہم مسئلہ ہے۔ رسولؐ نے 1400 سال پہلے ریاست مدینہ کی بنیاد قانون کی حکمرانی سے رکھی۔ ہر سال 1.4 ٹریلین ڈالرز ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ ممالک میں منتقل ہوتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ریاست مدینہ میں اقلیت کو برابر کے شہری کے حقوق دیئے گئے۔ ریاست مدینہ میں کوئی قانون سے بالا تر نہیں تھا۔ انسانیت اور ہمدردی ریاست مدینہ کا اہم جز تھا۔ مغربی ممالک فلاحی ریاست کے طور پر لوگوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ جو رسولؐ کی تعلیمات پر عمل کرتا ہے وہ لیڈر بن جاتا ہے۔ ریاست مدینہ میں تعلیم کا حصول اہم جز سمجھا جاتا تھا۔ حضورؐ نے فرمایا تعلیم کیلئے چین بھی جانا پڑے تو جائیں، اسلام نے خواتین کو جو حقوق دیئے یورپ میں 100 سال پہلے بھی نہ تھے۔ 70ف یصد خواتین کو وراثت میں حصہ نہ ملنے پر ہم نے قانون پاس کرایا۔
انہوں نے کہا کہ ہم فلسطین اور کشمیر کے معاملے پر ناکام ہوئے۔ بھارت اور اسرائیل دونوں آبادی کا تناسب بدلنے پر بضد ہیں مگر کوئی عالمی دباؤ نہیں ڈالا گیا۔ ڈیڑھ ارب آبادی ہے، مگر ہم اس قابل نہیں کہ مظالم روک سکیں۔ او آئی سی کا مقصد تھا اسلامی اقدار کا تحفظ کیا جائے۔ افسوس ہے آج اسلامی اقدار کا تحفظ خطرے میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کو ناکام کر دیا۔ ہم تقسیم ہیں، ہم ڈیڑھ ارب آبادی ہیں، لیکن ہماری آواز کوئی نہیں سنتا۔ فلسطینیوں اور کشمیریوں کو حق خودارادیت نہیں دیا گیا۔ کشمیریوں سے بنیادی حقوق چھین لیے گئے، غاصبانہ قبضہ ہوا لیکن مسلم دنیا خاموش رہی۔
وزیراعظم نے کہا کہ دن دھاڑے فلسطینیوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، کوئی حقیقی کام نہیں ہو رہا۔ کشمیریوں کا تشخص، جغرافیائی ہیت، سب تبدیل ہو رہا ہے، کوئی بات نہیں ہو رہی۔ اگر ہم مسلم ممالک متحد ہو کر متفقہ موقف اختیار نہیں کریں گے تو کوئی ہمیں نہیں پوچھے گا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو ہر ممکن انداز میں مستحکم بنانا ہو گا، افغان عوام کی مدد کرنا ہو گی۔ افغان سرزمین سے بین الاقوامی دہشتگردی کا مکمل خاتمہ کرنا ہو گا۔ یاک مستحکم افغان حکومت ہی افغانستان سے دہشتگردی کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ افغان فخر کرنے والے، اپنی آزادی اور خودمختاری کا ہر ممکن تحفظ کرنے والے لوگ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ معاشرے کی خرابی کی بڑی وجہ بے حیائی ہے۔ بے حیائی سے خاندانی نظام برباد ہوتا ہے۔ موبائل پر موجود جنسی مواد نسلیں تباہ، جنسی جرائم میں اضافہ، طلاق کی شرح بڑھا رہا ہے۔ جنسی مواد کے باعث بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا انقلاب کے نقصانات تیزی سے معاشرے کو تباہ کر رہے ہیں۔