عمران خان نے اتوار کو پرامن احتجاج کی کال دے دی
اسلام آباد: امپورٹڈ حکومت کو کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے
قوم سے خطاب میں عمران خان نے کہا کہ عوام ہی مجھے لے کر آئے اور میں نے اُن ہی میں جانا ہے، میں جدوجہد کے لیے تیار ہوں، میں اب قوم کے ساتھ ہوں۔
وزیراعظم عمران خان نےسپریم کورٹ کے فیصلے کو مایوس کن قرار دیا اور کہا کہ امپورٹڈ حکومت کو کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے، اتوار کو پرامن احتجاج کی کال بھی دے دی۔
انہوں نےاتوار کو نئی متوقع حکومت کے خلاف احتجاج کی کال دی اور عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سب نے اتوار کو عشاء کی نماز کے بعد نکلنا ہے اور زندہ قوم کی طرح احتجاج کرنا ہے۔
عمران خان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ منظور ہے لیکن اس سے مایوسی ہوئی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ اور پاکستان کی عدلیہ کی عزت کرتا ہوں، میں آزاد عدلیہ کی تحریک کے دوران جیل جاچکا ہوں۔
عمران خان نے مزید کہا کہ تحریک عدم آئی تو میں نے اپنی اسمبلی ہی توڑ دی، تاکہ عوام حکومت منتخب کریں، اپوزیشن والے اقتدار میں آکر قومی احتساب بیورو (نیب) اور اپنے خلاف کیسز ختم کرنا چاہتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اپوزیشن والے ایک دوسرے کو چور کہتے تھے، سب نے ایک دوسرے کیخلاف مقدمات بنائے، جنرل مشرف نے حزب اختلاف کے لوگوں کو پہلا این آر او دیا، اب یہ این آر او ٹو مانگ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے آرٹیکل 5 کے تحت رولنگ دی، سپریم کورٹ کو بیرونی مداخلت کے معاملے کو دیکھنا چاہیے تھا۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ عدالت کو چاہیے تھا کہ وہ بیرونی مداخلت کا مراسلہ منگوا کر دیکھ تو لیتی، عدلیہ کا فیصلہ تسلیم کیا ہے لیکن اس سے مایوسی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کھلے عام ہارس ٹریڈنگ ہوئی، ارکان اسمبلی کو بھیڑ بکریوں کی طرح بند کیا گیا، ارکان اسمبلی کی بولیاں لگائی گئیں، بچہ بچہ دیکھ رہا تھا، یہ کون سی جمہوریت ہے۔
عمران خان نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی جمہوریت مذاق بن گئی، ارکان اسمبلی کی ایسی کھلے عام خرید و فروخت تو بنانا ری پبلک میں بھی نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ رشوت دے کر کوئی خرید رہا ہے، رشوت لے کر کوئی بک رہا ہے، ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت شریف فیملی کے دور میں چھانگا مانگا سے شروع ہوئی۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو عظیم ملک بنتے دیکھنا خواب ہے، ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کا تماشا دیکھ کر دھچکا لگتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ مغربی جمہوریت میں ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، مغرب میں اگر ایسا ہو تو معاشرہ بھی اسے قبول نہیں کرتا۔
عمران خان نے کہا کہ 20 سال پہلے میں نے برطانیہ میں عراق کے خلاف جنگ میں مارچ کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کا مستقبل بچانے والے اگر اس خرید و فروخت کیخلاف نہیں کھڑے ہوںگے، تو کوئی باہر سے مدد کو نہیں آئےگا۔
وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ بیرون ملک سفارتخانے وہاں کے لوگوں سے بات چیت کے نتائج پر خفیہ پیغام ’سائفر‘ بھیجتی ہیں، اس لیے اسے عوام کے سامنے نہیں لاسکتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ امریکا میں پاکستانی سفیر کی ایک امریکی آفیشل سے ملاقات ہوئی، پہلے کہا گیا کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کو روس نہیں جانا چاہیے تھا۔
عمران خان نے کہا کہ امریکی آفیشل نے بتایا کہ یہ فیصلہ وزیراعظم عمران خان نے خود کیا، اگر عمران خان عدم اعتماد سے بچ گیا تو پاکستان کو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی آفیشل کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان عدم اعتماد ہار جاتا ہے تو پاکستان کو معاف کردیا جائے گا۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ امریکی آفیشل کو پتہ تھا کہ کس نے اچکن سلوائی ہوئی ہے، اسے معاف کرنے کا پیغام دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکی آفیشل کو کیسے پتہ تھا کہ کس نے اچکن سلوائی ہوئی ہے؟ جس نے اچکن سلوائی ہوئی ہے وہ کہتا ہے بیگرز آر ناٹ چوزرز، مغرب کو ایسا کہنے والے ہی پسند ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ 22 کروڑ عوام کی توہین ہے کہ امریکا پاکستان کو حکم دے رہا ہے، پوچھتا ہوں اگر ہم نے اگر دوسرے ملکوں کے احکامات ہی ماننے ہیں، تو پھر ہم آزاد کیوں ہوئے؟
عمران خان نے کہا کہ مغرب اگر کسی پاکستانی کو بہتر طور پر جانتا ہے تو وہ عمران خان ہے، ان کے پاس میری پوری پروفائل موجود ہے، وہ جانتے ہیں ڈرون کے خلاف میں نے آواز اٹھائی۔
انہوں نے کہا کہ ڈرون حملے کرکے کہا جاتا تھا، کہ دہشت گرد ہیں، بعد میں پتہ چلتا کہ مرنے والے تو معصوم تھے، شادیوں کی تقریبات پر حملے کرکے لوگ مارے گئے اور کہا گیا کہ دہشت گرد تھے۔
وزیراعظم نے کہا کہ نہ عمران خان کے پیسے باہر پڑے ہیں، نہ وہ مغرب کی کٹھ پتلی بن سکتا ہے اس لیے اسے ہٹانا ضروری ہے، اس وقت کے حکمراں اس لیے خاموش رہے کہ ان کے پیسے باہر پڑے تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ میرے نزدیک پہلے پاکستانیوں کا فائدہ ہے، اس کے بعد دوسری دنیا کا نمبر آتا ہے، پاکستانی صاحب اقتدار ڈالرز کے لیے ہم وطنوں کو جنگوں میں پھنسا دیتے تھے۔
عمران خان نے کہا کہ نائن الیون آیا پھر پاکستان ان کے ساتھ چلا گیا، دوسروں کی جنگیں لڑنے سے پاکستانیوں کو ذلت ملی، دوسروں کی جنگیں لڑنے کے باوجود ہمیں ان کی طرف سے بھی عزت نہیں ملی۔
انہوں نے کہاکہ ہمیں کوشش کرنی ہے کہ 22 کروڑ لوگوں کو کیسے غربت سے نکالنا ہے، افسوس سے کہتا ہوں کہ مغرب کو وہ لوگ پسند ہیں، جو ان کی بات مانتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ عمران خان امریکا مخالف نہیں، لیکن پاکستان ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہونیوالی قوم نہیں ہے، فوج جمہوریت کی حفاظت نہیں کرسکتی، قوم اپنی جمہوریت اور خود داری کی حفاظت کرتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہماری خارجہ پالیسی آزادانہ ہونی چاہیے، جس میں سب سے اچھے تعلقات ہوں، پاکستان کو روس کے خلاف بیان دینے کا مطالبہ کرنیوالے کیا یہی بات بھارت سے کرسکتے ہیں؟
عمران خان نے کہا کہ میں ہندوستان کو دوسروں سے بہتر جانتا ہوں،وہ بہت خودار قوم ہے ،کسی سپر پاور کو جرات نہیں کہ انہیں ہدایات دیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک پارٹی دوسری پارٹی میں جارہی ہے، میڈیا نے بھی اس عمل کو سپورٹ کیا، شرمناک بات ہے کہ ارکان اسمبلی سے امریکی آفیشلز ملاقاتیں کرنے لگے۔
وزیراعظم نے کہا کہ آہستہ آہستہ پتہ چلا کہ یہ تو پورا پلان بنا ہوا ہے، ضروری ہے کہ فیصلہ کریں کہ ہم آزاد خود مختار قوم بننا چاہتے ہیں، یا غلام قوم؟
ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے قوم سے ریکارڈ خطاب کے بجائے براہ راست کرنے سے متعلق فیصلہ قریبی رفقاء سے مشاورت کے بعد کیا ہے۔