Featuredاسلام آباد

آئین شکنی سے ہماری تاریخ بھری ہوئی ہے، حالیہ دنوں میں بھی بڑی آئین شکنی ہوگی

اسلام آباد: میرا وزیراعظم کہتا ہے کہ مایوس ہوں مگر عدالت کا فیصلہ قبول کرونگا

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے پاس ہماری اپوزیشن کیوں گئی، سوموٹو نوٹس کیوں لیا گیا، اس کا پس منظر ضروری ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ سیاسی اور جمہوری انداز میں عدم اعتماد کا دفاع کرنے کا حق رکھتے ہیں، وزیراعظم کہہ چکے بوجھل دل کے ساتھ مایوس ہیں مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تحریک کو پیش کرنا اپوزیشن کا حق اور دفاع کرنا میرا فرض ہے، ہم آئینی، سیاسی اور جمہوری انداز میں عدم اعتماد کے دفاع کرنے کا حق رکھتے ہیں، آئین شکنی مطمع نظر تھا نہ ہوگا، وزیراعظم کہہ چکے بوجھل دل کے ساتھ مایوس ہیں مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں، آئین شکنی سے ہماری تاریخ بھری ہوئی ہے، حالیہ دنوں میں بھی بڑی آئین شکنی ہوگی۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ 12 اکتوبر 1999ء کو بھی آئین شکنی ہوئی، تاریخ گواہ ہے کہ نہ صرف جو کچھ مانگا ہی نہیں گیا اس کی بھی ترمیم اس وقت کردی گئی، مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو نے عدالت کے فیصلے سے پہلے بیان دیئے کہ نظریہ ضرورت کا فیصلہ قبول نہیں کرینگے، نظریہ ضرورت کو دفن ہونا چاہیئے تھا اور دفن ہوا اچھا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں تحریک انصاف کا موقف آج ریکارڈ پر اور تاریخ کے سامنے مؤقف رکھتا ہوں، میرا وزیراعظم کہتا ہے کہ مایوس ہوں مگر عدالت کا فیصلہ قبول کرونگا، ہم آرٹیکل 95 کی پاسداری کے لئے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے لئے یہاں موجود ہیں، آج عدلیہ کے فیصلے کے مطابق یہ گھڑی واپس ہوئی اور آج اس فیصلے کے مطابق آج تین اپریل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری اپوزیشن پونے چار سال سے الیکشن کا مطالبہ کررہی ہے، اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ آئیے پھر عوام کے پاس چلتے ہیں، اس حوالے سے جو بھی فیصلہ آیا اس کو تسلیم کرتا ہوں، عدلیہ کے پاس ہماری اپوزیشن کیوں گئی، سوموٹو نوٹس کیوں لیا گیا، اس کا پس منظر ضروری ہے۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ڈپٹی سپیکر نے اس آئینی پراسیس سے انکار نہیں کیا گیا، نئی صورتحال جو سامنے آئی، بیرونی سازش کی جو بات ہورہی ہے اس وجہ سے اس کا غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی ہونا ضروری ہے، نیشنل سکیورٹی کمیٹی جب اس مراسلے کو دیکھتی ہے تو اسے سنگیں قرار دے کر دو آرڈرز کرتی ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے، اس پر ڈی مارش اسلام آباد کے ساتھ واشنگٹن میں بھی کیا جاتا ہے، پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے اس معاملہ کو رکھا جائے، اسپیکر اس کا اجلاس بلایا جاتا ہے، اپوزیشن کو دعوت دی جاتی ہے۔

تاہم اس کے بعد اپوزیشن ارکان نے شور مچانا شروع کردیا، شاہ محمود قریشی نے اپنی تقریر جاری رکھنے پر اصرار کیا لیکن اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close