فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں ، ہمیں ان معاملات سے باہر رکھیں
اسلام آباد : افواج پاکستان کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے پریس کانفرنس میں کہا کہ دو روز قبل فارمیشن کمانڈر کانفرنس ہوئی۔ جو حالات چل رہے ہیں، ان کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ افواج پاکستان کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے چند ہفتوں میں بلوچستان میں امن خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان کے داخلی اور بارڈر سیکیورٹی مستحکم ہے۔ پاک فوج کی قربانیوں کا اعتراف عالمی سطح پر کیا گیا۔ کسی نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو وہ آنکھ نکال دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں۔ ہمیں ان معاملات سے باہر رکھیں۔ پروپیگنڈا مہم غیر قانونی، ملکی مفاد کے خلاف ہے۔ یہ سازش نہ پہلے کامیاب ہوئی نہ آئندہ ہوگی۔ افواہوں کی بنیاد پر فوج کی کردار کشی کسی صورت قبول نہیں ہے۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ آرمی چیف ، ڈی جی آئی ایس آئی وزیراعظم ہاؤس گئے تھے۔ وزیراعظم ہاؤس میں ان کے رفقاء بھی موجود تھے۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر تین صورتحال پر بات چیت ہوئی۔ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی آپشن نہ دیا گیا نہ سامنے رکھا گیا۔ وزیراعظم آفس سے آرمی چیف کو بولا گیا ڈیڈ لاک ہے بیچ بچاؤ کرائیں۔
میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ہمارے ایٹمی پروگرام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اگر سیاست میں ہماری مداخلت کا کوئی ثبوت ہے تو سامنے لایا جائے۔ آرمی چیف کوئی ایکسٹینشن نہیں لینا چاہتے ہیں اور نہ ہی آرمی چیف کوئی ایکسٹینشن قبول کریں گے۔ آرمی چیف 29 نومبر کو ریٹائر ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بقاء صرف اور صرف جمہوریت میں ہے۔ پاکستان میں کبھی مارشل لاء نہیں آئے گا۔ فوج کون ہوتی ہے این آر او دینے والی؟ فوج این آر دینے کی کسی قسم کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر جو مہم چلائی گئی ان کے محرکات تک پہنچ چکے ہیں۔ مہم میں بیرونی ہاتھ بھی ملوث ہے۔ مہم سے متعلق بیرون ممالک سے بھی لوگوں کے ملوث ہونے کے شواہد ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سائفر اصل میں دفتر خارجہ کی ڈومین میں ہوتے ہیں۔ یہ ٹاپ سیکریٹ ڈاکیومنٹ ہوتے ہیں۔ سائفر جس دن آیا تو اسی دن آئی ایس پی آر نے اپنا کام شروع کردیا تھا۔ پروپیگنڈا تب آگے پھیلتا ہے جب بغیر تصدیق چیز آگے بڑھاتے ہیں۔ ہمارے دین میں کہا گیا ہے کوئی بھی چیز بغیر تصدیق آگے نہ پہنچاؤ۔
ترجمان نے کہا کہ جلسوں میں اداروں کو نشانہ بنانے سے اجتناب کرنا چاہیئے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں ’سازش‘ کا لفظ شامل نہیں ہے۔ ڈیمارش صرف سازش پر نہیں دیئے جاتے۔ اس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ ڈیمارش ڈپلومیٹک پروسیجر ہے۔ وزیراعظم کی سیکیورٹی ہائی لیول ہوتی ہے اور رکھی جانی چاہیئے۔ عمران خان کی جان سے متعلق کوئی تھریٹ ہوا تو مکمل نظر رکھیں گے۔
میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ اسٹیک ہولڈرز کو بیٹھ کر صورتحال کو ٹھیک کرنا چاہیئے۔ تب ہی وہ لوگ جو یہ کر رہے ہیں کیفر کردار تک پہنچ سکیں گے۔ پاک فوج حکومت کے ماتحت ادارہ ہے۔ فوج کے اندر کسی قسم کی کوئی تقسیم نہیں ہے۔ فوج کی ہمیشہ سے ایک سمت ہے، اس میں کبھی تبدیلی نہیں آتی ہے۔ آرمی چیف جس طرف دیکھتا ہے سات لاکھ فوج بھی اسی طرف دیکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فوج یا سربراہ کی کردار کشی پر ایکشن حکومت وقت کا بھی کام ہے۔ موجودہ حکومت کوئی کارروائی کررہی ہے تو ان سے پوچھ لیں۔ انٹیلی جنس ایجنسیز تھریٹ، افواہوں کیخلاف کام کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی اس دن طبیعت ٹھیک نہیں تھی، آفس نہیں آئے تھے۔ اس لیے وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں نہیں گئے تھے۔ آرمی چیف کے عمران خان سے اچھے تعلقات ہیں۔ جلسے اور ریلیاں جمہوریت کا حسن ہیں۔ دہشت گردی کی وجہ سے پہلے ایسا نہیں ہوسکتا تھا۔