لاہور : وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی حلف برداری کا غیر قانونی فیصلہ سنانے والے جج کےخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسبھیج رہا ہوں
لاہور میں پریس کانفرس سے خطاب میں گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ صوبے میں جاری سیاسی بحران سب سے سامنے ہے، وقت کم مقابلہ سخت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے دن جب سے سابق وزیر اعظم نے مجھے نامزد کیا اور صدر پاکستان نے مجھے گورنر کے عہدے پر تعینات کیا تب اتنا بحران نہیں تھا جتنا آج پیدا ہوگیا ہے، اس وقت صرف وزیر اعلیٰ پنجاب نے استعفیٰ دیا تھا اور نئے وزیر اعلیٰ کے لیے انتخاب ہونا تھا، مجھے لگا تھا یہ معاملہ جلد حل ہوجائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ گورنر کے عہدے کی پیش کش قبول کرنے کا واحد مقصد یہ تھا کہ میں لوگوں کے لیے آسانی کرنے کی کوشش کروں گا، مجھے خوشی ہے کہ ان چند دنوں میں کچھ کام کرنے میں کامیاب ہوگیا ہوں۔
پنجاب کے سیاسی حالات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ انوکھے لاڈلے کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے، یہ جو واردات مرکز میں ہوئی وہی پنجاب میں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بحران میں تین طرح کے کردار سامنے آئے، ایک عدالت، پارلیمنٹرینز اور سیاسی جماعتیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب میں جو الیکشن ہوئے اسے ہم کسی بھی نوعیت سے انتخابات نہیں کہہ سکتے کہ میں الیکشن لڑ رہا ہوں اور میں اپنا ووٹ ہی نہ ڈالوں‘۔
گورنر پنجاب نے کہا کہ یہ کوئی الیکشن نہیں کہ ایک غنڈا بیلٹ باکس پرکھڑا کردیا جائے اور میرے ووٹرز کو مار مار کر وہاں سے بھاگنے پر مجبور کردے، یہ کس معیار کا انتخاب ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد پارلیمنٹ کا کردار آتا ہے، اگرپارلیمنٹرینز اپنے ایوان کے تقدس کو ہی نہیں بچا سکتے تو انہوں نے عوام کو کیا ریلیف دینا ہے، اس سارے بحران میں یہ بات سامنے آئی کہ لگتا ہے پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں موجود رہنماؤں اور کارکنان نے کبھی پاکستان کی سیاسی تاریخ پڑھی ہے نہ پاکستان کا آئین پڑھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر سیاسی تاریخ پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا سیاسی قتل کیسے ہوا، کیسے ان کے خلاف بیرون ملک سازش ہوئی، آپ کے آباؤ اجداد نے آپ کو پکی پکائی ایم این اے، ایم پی اے شپ دے دی ہے۔
عمر سرفراز چیمہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے چیف سیکریٹری کو دباؤ میں لے کر نوٹی فکیشن جاری کروایا اور لاہور ہائی کورٹ سے اسپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے حلف لینے کا غیر آئینی فیصلہ کروایا، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم جسٹس جواد حسن کے خلاف قانون کارروائی کریں گے اور بطور گورنر پنجاب میں ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیج رہا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سیاسی بحران کے جو دو مرکزی کردار ہیں وہ وزیر اعظم اور ان کا بیٹا ہے، باپ نے مرکز سے حکومت کو ہٹایا اور عدلیہ کا استعمال کیا گیا اس پر کسی بھی پارلیمنٹرین نے احتجاج نہیں کیا اور اس کا نتیجہ ہم نے پنجاب میں دیکھا۔
گورنر پنجاب نے کہا کہ میں نے وزیر اعظم کو ایک کھلے مناظرے کی پیشکش کی تھی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خود مجھ سے متفق ہیں، ان جماعتوں میں سب کرپٹ نہیں ہیں، اچھے لوگ بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں ڈکٹیشن لینے والا بندا نہیں ہوں، میرے پاس کوئی فورس نہیں ہے، جس دن انہوں نے گورنر ہاؤس کو یرغمال بنایا تو میں نے ایس ایچ او سے لے کر چیف جسٹس تک سب سے رابطہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ کل میں صدر پاکستان سے ملاقات میں آئینی پوائنٹ پر تبادلہ خیال کروں گا اور بعد ازاں آرمی چیف سے ملاقات کروں گا، کیونکہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا مسئلہ ہے جسے ایک انوکھے لاڈلے نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔
عمر سرفراز چیمہ نے شہباز شریف کو نصیحت کی کہ اپنے بیٹے کو سمجھائیں، اگر آپ نے انہیں اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں ہی روک دیا ہوتا تو آج صوبے میں یہ بحران نہ ہوتا، میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ آئینی اور قانونی طریقے سےانتخابات لڑ کر آئے تو میں خود اس کا حلف لوں گا۔
مدینہ منورہ میں پیش آنے والے واقعے پر ان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے دو اعلامیے بھی آچکے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کو بیرونی طاقتوں اور سازش سے بہت بڑا خطرہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ سندھ میں بھی اسی طرح کی غنڈہ گردی سے وزارت اعلیٰ کا عہدہ لے لیا جائے۔
عمر چیمہ نے کہا کہ سسیلین مافیا کو ریلیف دینے کے لیے آپ رات گئے عدالتیں کھول دیتے ہیں اور ان کے نیب کیسز کے لیے عدالتیں نہیں کھولی جاتیں۔