کیا عمران خان کے بیان کے بعد کسی ثبوت کی ضرورت رہ گئی ہے؟ : وزیر داخلہ
اسلام آباد : عمران خان کا بیان ہے کہ ہمارے ساتھ لوگ مسلح تھے۔ کیا عمران خان کے بیان کے بعد کسی ثبوت کی ضرورت رہ گئی ہے؟
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ عمران خان قوم کو تقسیم، نوجوان نسل کو گمراہ کر رہے ہیں۔ آزادی مارچ کے نام پر یہ وفاق پر حملہ آور ہوئے۔ چند ہزار مسلح لوگ وفاقی دارالحکومت کی طرف بڑھے۔ اٹک، میانوالی کے بعد اسلام آباد کی حدود پر ان کو روکا گیا توانہوں نے پولیس پر فائرنگ کی۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے مسلح انداز میں پولیس کو یرغمال بھی بنایا۔ سپریم کورٹ میں دھوکا دہی، غلط بیانی سے کام لے کر آرڈر جاری کرایا۔ آرڈر کے بعد ان کو راستہ ملا کہ ان کو آنے دیا جائے، راستے کھلے اور انہیں ایف نائن پر جلسے کی اجازت ملی۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے لانگ مارچ کے لیے کے پی وسائل کو استعمال کیا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر ان کو موقع ملا تو انہوں نے ڈی چوک جانے کی ٹھانی۔ لانگ مارچ سے ایک روز قبل جتھے یہاں پہنچ گئے تھے۔ ہم انکوائری کر رہے ہیں کس جگہ اور کس بلڈنگ میں کون لوگ تھے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ پارلیمنٹ لاجز اور کے پی ہاؤس میں بھی لوگوں کو ٹھہرایا گیا۔ پارلیمنٹ لاجز میں پورے ملک سے ممبر مقیم ہیں۔ ہم نے تمام بلڈنگ مارک کرلیں، کس کس جگہ لوگ تھے۔ عمران خان کا بیان ہے کہ ہمارے ساتھ لوگ مسلح تھے۔ کیا عمران خان کے بیان کے بعد کسی ثبوت کی ضرورت رہ گئی ہے؟
رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر عمران خان نے کہا سپریم کورٹ سے اجازت مل گئی ہے۔ عمران خان لوگوں کو بتاتے کہ سپریم کورٹ نے کس جگہ جلسے کا کہا۔ لوگوں کو میسجز کیے جارہے تھے کہ ڈی چوک پہنچیں۔ راولپنڈی، اسلام آباد سے کسی شہری نے فسادی، فتنہ مارچ میں شرکت نہ کی۔
انہوں نے کہا کہ 3 سے 4 ہزار افراد پہلے سے ہی ڈی چوک پہنچ چکے تھے۔ مسلح لوگوں کو لاجز میں ٹھونسا ہوا تھا۔ میں 200 فیصد تسلیم کرتا ہوں، آپ یہاں گولی چلوانے کیلئے ہی آئے تھے۔ آپ کے سامنے لوگ اسلحہ لے کر کھڑے تھے۔ کیا اس وقت معلوم نہیں تھا؟
ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی طرف سے صرف ربڑ کی گولیاں، آنسو گیس سے فسادی ٹولے کا راستہ روکا گیا۔ اسلام آباد میں پولیس کی طرف سے سنگل فائر نہیں کیا گیا۔