اس ملک میں تبدیلی تب آئے گی جب تمام ادارے اپنا کام آئین کے مطابق کریں : عدالت
اسلام آباد : جس طرح گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا، زبان سے کہی ہوئی چیز واپس نہیں آتی ہے
عدالت نے کہا کہ ججوں سے متعلق جو کہا گیا اس کی توقع نہیں تھی، زبان سے کہی ہوئی چیز واپس نہیں آتیم عدالت نے عمران خان کو سات دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کو سنا۔ جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار بینچ میں شامل تھے۔
عمران خان اپنے وکلاء حامد خان، شعیب شاہین، نیاز اللہ نیازی و دیگر کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔ اٹارنی جنرل، ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مجھے ایسے بیانات کی بالکل بھی توقع نہیں تھی۔ آپ کے مؤکل کا ماتحت عدلیہ بارے بیان کی توقع نہیں تھی۔ ماتحت عدلیہ ایلیٹس کی عدلیہ نہیں اسے اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ ججوں سے متعلق جو کہا گیا اس کی توقع نہیں تھی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ستر سال میں عام آدمی کی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں رسائی نہیں ہے۔ کم از کم جو جن حالات میں رہ رہے ہیں، وہ بھی دیکھنا چاہیے۔ میں توقع کر رہا تھا کہ احساس ہو گا کہ غلطی ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا، زبان سے کہی ہوئی چیز واپس نہیں آتی ہے۔ جن مشکل حالات میں ضلع کچہری میں ججز کام کر رہے ہیں، وہ سب کے سامنے ہیں۔ میں یہ توقع کررہا تھا کہ اس پر شرمندگی اور افسوس کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک سیاسی جماعت کے لیڈر کے فالورز ہوتے ہیں اس کو کچھ کہتے سوچنا چاہیے۔ گزشتہ تین سال میں بغیر کسی خوف کے ہم نے ٹارچر کا ایشو اٹھایا ہے۔ ٹارچر کی کسی بھی سطح پر اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ کیا کسی شخص کو لاپتہ کرنے سے بڑا کوئی ٹارچر ہوتا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ابصار عالم اور اسر طور کیس میں سب کچھ واضح تھا۔ اس عدالت نے ہر معاملے کو وفاقی کابینہ کو بھیج دیا تھا۔ کاش اس وقت ٹارچر والے معاملے پر غور کیا ہوتا تو آج یہ سب نہ ہوتا۔ آج نہ کسی تھانے میں ٹارچر ہوتا، نہ ہی کوئی گمشدگی ہوتی۔ آپ کے مؤکل کو احساس ہی نہیں کہ انہوں نے کیا کہا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ پٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ سے کب نمٹائی گئی اور تقریر کب کی گئی؟ وکیل نے بتایا کہ پٹیشن 22 اگست کو نمٹائی گئی اور تقریر 20 اگست کو کی گئی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا تھا تو تقریر کی گئی۔ تمام چیزوں کی جانکاری کے باوجود پبلک اسٹیٹمنٹ دیا گیا۔ بڑے احترام کے ساتھ، اس عدالت نے توہین عدالت جیسے معاملات کو کم کردیا۔ اس عدالت کے تمام ججز نے خود کو آگے کیا، جتنا تنقید کرنا ہے کرے۔ فردوس عاشق اعوان کیس میں سب کچھ واضح ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ عدالت پیکا آرڈیننس معطل نہ کرتی تو سارے جیل میں ہوتے۔ اس آرڈیننس کے مطابق تو چھ ماہ تک کسی کو ضمانت بھی نہیں ملنا تھی۔ جب پیکا آرڈیننس کو معطل کیا تو سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلائے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ کے مؤکل نے جلسہ میں کہا کہ عدالت رات کو 12 بجے کیوں کھلی؟ عدالت کسی کو جوابدہ نہیں، یہ عدالت ہر کسی کے لیے کھلی رہتی ہے۔ یہ عدالت رات کو کھلی کہ 12 اکتوبر 1999 کا واقع نہیں ہو۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ بڑے اچھے الفاظ میں انہوں نے گلہ کیا، انہی الفاظ میں جو کہ بنتا نہیں تھا، خاتون جج سے گلہ کرتے۔ اس عدالت نے صرف قانون پر جانا ہے اور آئین پر عمل درآمد کرنا ہے۔ اس ملک میں کوئی بھی سیاسی رہنماء آئین کی سپرمیسی پر کام نہیں کرتے۔ اس کورٹ کے لیے سب سے اہم ماتحت عدلیہ ہے۔
عدالت نے کہا کہ کسی سیاسی جماعت کے خلاف کوئی فیصلہ دے تو سوشل میڈیا پر ٹرینڈ شروع ہوجاتے ہیں۔ میری اور ایک قابل احترام جج کی تصویر تھی، اس جج کو سیاسی جماعت کا رہنماء بنایا دیا۔ اس ادارے کو اگر سیاسی جماعتوں نے آپ ہولڈ نہیں کیا تو نتائج سنگین ہونگے۔
معزز ججز کا کہنا تھا کہ آپ نے جواب میں کہا ہے مگر حقیقت میں احساس ہی نہیں۔ یہ عمران خان جیسے رہنماء کا جواب نہیں ہے۔
طلال چوہدری، نہال ہاشمی اور دانیال عزیز کیسز کے سپریم کورٹ کے حوالے ہمارے سامنے ہے۔ توہین عدالت کیسز پر سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل لازم ہے۔ اس کورٹ نے کبھی بھی پروا نہیں کی کون کیا کہتا ہے؟ توہین عدالت کو ہم غلط استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ تمام عدالتی کارروائی کو شفاف رکھیں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اس عدالت کے صرف تحفظات عدلیہ کی آزادی پر ہے۔ دانیال عزیز، نہال ہاشمی اور طلال چوہدری کے فیصلے پڑھیں۔ آپ نے جو بھی لکھ کر دینا ہے سوچ سمجھ کر لکھیں۔ آپ اس معاملے کی سنگینی کا بھی اندازہ لگائیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی آج ختم ہو سکتی تھی، مگر اس جواب کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔ آپ کو جواب داخل کرانے کا ایک اور موقع دیا گیا ہے، آپ اس پر سوچیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بتائیں کہ کیا اس کیس میں کسی کو عدالتی معاون بھی مقرر کریں۔ اس ملک میں تبدیلی تب آئے گی جب تمام ادارے اپنا کام آئین کے مطابق کریں۔ آپ کو معلوم ہے کہ مطیع اللہ جان یہاں کھڑے ہیں اور ان کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ آپ ہمیں الزام دیتے ہیں کہ پاکستان کی عدلیہ 130 ویں نمبر پر ہے۔ ہم نے ایک کیس میں فواد چوہدری کو بتایا کہ وہ نمبر عدلیہ کا نہیں، ایگزیکٹو کا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو سات دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے وفاقی نمائندے کو بھی ہدایت کی آپ بھی بغاوت اور غداری کے کیسز پر نظرثانی کریں۔