Featuredاسلام آباد

توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کرلیا

اسلام آباد: عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف کی جانب سے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف ک(پی ٹی آئی) ے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ نااہلی ریفرنس پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

الیکشن کمیشن میں توشہ خانہ تحائف ظاہر نہ کرنے پر عمران خان نااہلی ریفرنس پر سماعت ہوئی، دوران سماعت مسلم لیگ (ن) کے وکیل خالد اسحٰق نے مؤقف اپنایا کہ ریفرنس میں سوال عمران خان کی جانب سے تحائف ظاہر نہ کرنے کا تھا، عمران خان نے جواب میں تحائف کا حصول تسلیم کیا ہے، عمران خان نے یہ بھی تسلیم کیا کہ تحائف گوشواروں میں ظاہر نہیں کیے۔

خالد اسحٰق نے کہا کہ جواب میں کہا گیا کسی نے بھی روزمرہ ضرورت کی چیزیں ظاہر نہیں کیں، عمران خان کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ تسبیح اور ٹائی تو میں نے بھی ظاہر نہیں کی ہوئی، مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ کمیشن میں کیس عمران خان کا ہے کسی اور رکن اسمبلی کا نہیں۔

خالد اسحٰق کا کہنا تھا کہ ظاہر نہ کیے گئے ایک کف لنک کی قیمت 57 لاکھ روپے ہے، جواب میں دوسری دلیل یہ دی گئی کہ کچھ تحائف مالی سال کے دوران ہی فروخت کردیے، عمران خان کے بقول فروخت کیے گئے تحفے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں۔

رکن الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا اکرام اللہ نے کہا کہ تحائف خرید کر فروخت کرنے اور ظاہر نہ کرنے کا نتیجہ کیا ہوگا؟ مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کے بقول ایف بی آر گوشواروں میں فروخت شدہ تحائف کی آمدن ظاہر کی ہے، الیکشن کمیشن اور ایف بی آر کے گوشوارے الگ الگ ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کے بقول الیکشن کمیشن مقدمہ سننے کا مجاز ہی نہیں ہے، ننکانہ صاحب کی نشست پر ضمنی انتخابات کے دوران بھی توشہ خانہ تحائف کا اعتراض اٹھا، ریٹرننگ افسر کو جواب میں عمران خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن مجاز فورم ہے۔

خالد اسحٰق نے کہا کہ اثاثے ظاہر نہ کرنے پر نااہل الیکشن کمیشن ہی کرسکتا ہے، ذاتی استعمال کی اشیا ظاہر کرنا ارکان اسمبلی کے لیے ضروری ہے، کیا 50 لاکھ کی گھڑی ذاتی استعمال کی چیز نہیں ہے؟ اعتراض کیا گیا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے چار ماہ بعد کسی کو نااہل نہیں کرسکتا۔

رکن الیکشن کمیشن سندھ نثار درانی نے کہا کہ ممکن ہے اثاثے ظاہر کرنے میں غلطی ہوگئی ہو، غلطی سے اثاثے ظاہر نہ ہوں تو نااہلی نہیں ہوتی۔

وکیل خالد اسحٰق نے کہا کہ اگر غلطی ہوئی ہے تو تسلیم کریں، ایک اعتراض عمران خان نے 62 (ون) (ایف) لگانے کے اختیار پر کیا ہے، فیصل واڈا کیس میں کمیشن نے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کا اطلاق کیا۔

مسلم لیگ (ن) کے وکیل خالد اسحاق نے دوران دلائل پانامہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پانامہ نظرثانی کیس میں اعتراض کیا تھا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ٹرائل کے بغیر نہیں ہوسکتا، عدالت نے کہا نوازشریف نے تنخواہ مقرر ہونے سے انکار نہیں کیا تھا۔

خالد اسحاق نے کہا کہ عدالت نے کہا اگر حقائق متنازع نہ ہوں تو ٹرائل کی ضرورت نہیں، عمران خان حلفیہ بیان پر جھوٹ بولنے کے مرتکب ہوئے ہیں، اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) کے وکیل خالد اسحاق کے دلائل مکمل ہوگئے۔

عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر نے قرار دیا ان کے پاس عمران خان کی نااہلی کیلئے ٹھوس مواد موجود ہے، اسپیکر نے ریفرنس میں عمران خان کے 2017 اور 2018 کے گوشواروں کا حوالہ دیا، آرٹیکل 62 ون ایف کے لیے عدالت کی ڈیکلریشن لازمی ہے۔

علی ظفر نے کہا کہ اسپیکر کے پاس فیصلہ کرتے وقت کوئی عدالتی ڈیکلریشن موجود نہیں تھا، اسپیکر آرٹیکل 62 ون ایف کا ریفرنس بھیجنے کا اہل ہی نہیں ہے، یہ ایک سیاسی کیس ہے، ثابت کروں گا جو تحائف ظاہر کرنا ضروری تھے وہ کیے گئے ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ 62 ون ایف کے تحت نااہلی کا فیصلہ کرنا عدالتوں کا اختیار ہے، کیا کسی عدالت نے ثابت کیا کہ عمران خان صادق اور امین نہیں، الیکشن کمیشن عدالت نہیں بلکہ کمیشن ہے، جب تک ہائی کورٹ کی نگرانی نہ ہو تو کوئی ادارہ عدالت نہیں بن جاتا۔

انہوں نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن خود کو عدالت قرار نہیں دے سکتا، الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں کہ ارکان کی ایمانداری کا تعین کرسکے، سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں۔

رکن کے پی اکرام اللہ نے کہا آپ کے مطابق کوئی بے ایمان ہو بھی تو کمیشن کر نہیں سکتا، رکن الیکشن کمیشن پنجاب نے کہا کہ کمیشن اگر کچھ کر نہیں سکتا تو اسپیکر کے ریفرنس بھیجنے کی شق کیوں ڈالی گئی؟

خیال رہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف نے اگست کے اوائل میں توشہ خانہ کیس کی روشنی میں عمران خان کی نااہلی کے لیے الیکشن کمیشن کو ایک ریفرنس بھیجا تھا۔

ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے اپنے اثاثوں میں توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف اور ان تحائف کی فروخت سے حاصل کی گئی رقم کی تفصیل نہیں بتائی۔

اپریل کے آغاز میں سابق وزیر اعظم نے توشہ خانہ میں ملنے والے تحائف کے تنازع پر ایک غیر رسمی میڈیا گفتگو کے دوران جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ان کے تحفے ہیں اور یہ ان کی مرضی ہے کہ انہیں رکھنا ہے یا نہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close