آمریت سے ٹکرا جانے والی بے نظیر کی سیاسی جدوجہد کی کہانی
بدترین آمریت کے خلاف مردانہ وار لڑنے والی رہنما بے نظیر بھٹو شہید
محترمہ بینظیر بھٹو شہید پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ناقابلِ فراموش باب ہیں۔ بینظیر کو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کئی ایسے امتیازات حاصل ہیں جو کسی اور کے حصے میں نہ آسکے۔ بینظیر اپنے نام کی طرح بینظیر تھیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں جتنے مشکل چیلنجز کا سامنا کیا وہ بھی ان کا خاصہ تھا حتیٰ کہ جمہوری اصولوں کی پاسداری کرتے کرتے انہوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔
تاریخ میں سانحات ہمیشہ عظیم کامیابیوں کے درپے رہے ہیں۔ بے نظیر کی موت نے جہاں اسے انمٹ کر دیا وہیں اس کا قتل تاعمر ہمارے دل میں کانٹے کی طرح چبھتا رہے گا۔ اس کی موت کا لمحہ اب ہم میں سے ہر ایک کو ہمیشہ یاد رہے گا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلزپارٹی اور بھٹو خاندان پر جو دورِ ابتلا آئے، وہ بینظیر بھٹو ہی تھیں،جنہوں نے بھٹو کی سیاسی وارث ہونے کا حق نبھایا اور اپنی والدہ نصرت بھٹو کے ہمراہ ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کیں۔
بھرپور عوامی اصرار پر عملی سیاست میں حصہ لینے کے لیے 33 سالہ بینطیر بھٹو 1986ءمیں جلاوطنی کے بعد پہلی بار لاہور آئیں تو بھٹو کی بیٹی کا ایسا فقید المثال استقبال ہوا کہ آج تک اس کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایسے بڑے مجمعے کو دیکھ کر ہمیشہ اسلام آباد کے تخت کو الٹانے کی بات کی جاتی ہے مگر جمہوریت کی مشعل برادر بے نظیر بھٹو نے ایسا سوچا بھی نہیں۔ دختر مشرق نے عوام کے جم غفیر کو دیکھ کر بڑے تحمل سے کہا کہ وہ ملک میں جمہوریت بحال کرائیں گی اور عوامی مینڈیٹ کی طاقت سے ہی اقتدار میں آئیں گی۔ بینظیر نے اس بھرپور عوامی انداز میں انتخابی مہم چلائی کہ کوئی بھی ان کی سیاسی بلوغت کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔
عوام نے بھٹو کی بیٹی کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور پھر اقتدار کے سنگھاسن تک بھی پہنچادیا۔ تمام تر سازشوں کا مقابلہ کرنے کے بعد اپنے والد کی پنکی بینظیر بھٹو جب 1988 میں محض 35 برس کی عمر میں اسلامی دنیا اور پاکستان کی پہلی وزیراعظم منتخب ہوئیں تو ان کے سامنے مزید بڑے بڑے چیلنجزموجود تھے۔ 1989ء میں بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی جو بری طرح ناکام رہی۔ اس دور میں بلاشبہ بینظیر نے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن سیاسی ریشہ دوانیوں کے باعث محض 20 ماہ بعد صدر غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو حکومت کو گھر بھجوادیا۔ ملک میں ایک مرتبہ پھر سوچی سمجھی سازش کے طور پر جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی جس سے ایک بے یقینی کی فضا ضرور پیدا ہوئی مگر بے نظیر بھٹو کے تجربات میں ایک اور گراں قدر تجربے کا اضافہ ہوگیا۔
اس کے بعد بینظیر بھٹو نے ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لئے جدوجہد مزید تیز کردی۔ ایک بار پھر الیکشن کا موسم آیا، بینظیر کو پھر سازشی عناصر کا سامنا تھا، اکتوبر، 1993ء میں عام انتخابات ہوئے، پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں معمولی اکثریت سے کامیاب ہوئیں اور یوں بینظیر ایک مرتبہ پھر وزیرِاعظم بن گئیں، اس دور میں بھی بینظیر کو کئی سیاسی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ ن لیگ کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی عوامی جمہوری حکومت کے خلاف ٹرین مارچ سمیت بہت سے ارینجڈ مظاہرے کرائے گئے۔ اسی دور میں پولیس کے ہاتھوں وزیراعظم شہید بینظیر بھٹو کے بھائی اور سندھ اسمبلی کے منتخب رکن میر مرتضیٰ بھٹو کو ان کے گھر کے چند فاصلے پر شہید کر دیا گیا اور تقریباً ایک ماہ بعد پھر اسی طریقہ سے صدارتی اختیارات کی تلوار استعمال کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی حکومت کو چلتا کر دیا گیا۔
بینظیر بھٹو کا دوسرا سیاسی جنم 2007میں ہوا۔ جب ساڑھے آٹھ سال کی جلاوطنی ختم کر کے بینظیر بھٹو 18 اکتوبر2007 کو وطن واپس آئیں تو ان کا کراچی ائیرپورٹ پر فقید المثال استقبال کیا گیا۔ بے نظیر کا کارواں شاہراہِ فیصل پر مزارِ قائد کی جانب بڑھ رہا تھا کہ اچانک زور دار دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں 150 افراد موت کی نیند سو گئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ قیامت صغریٰ کے اس منظر کے دوران بینظیر کو بحفاظت بلاول ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ پھر جب بی بی اپنے بچوں سے ملنے دوبارہ دبئی گئیں تو 3 نومبر کو صدر جنرل پرویز مشرف نے ماورائے آئین قدم اٹھاتے ہوئے ایمرجنسی نافذ کر دی۔ یہ خبر سنتے ہی بینظیر دبئی سے واپس وطن لوٹ آئیں۔ انہوں نے ایمرجنسی کے خاتمے، ٹی وی چینلز سے پابندی ہٹانے اور سپریم کورٹ کے ججز کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ اس وقت تک ملک میں نگران حکومت بن چکی تھی اور مختلف سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لینے کے معاملے میں کشمکش کا شکار نظر آ رہی تھیں۔ اس صورت میں پیپلز پارٹی نے میدان خالی نہ چھوڑنے کی حکمت عملی کے تحت تمام حلقوں میں امیدوار کھڑے کیے۔ اگرچہ پاکستان آمد پر سانحہِ کار ساز کے ذریعے بینظیر کو پیغام دے دیا گیا تھا کہ ان کا راستہ روکنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کسی بھی حد تک جاسکتی ہے لیکن انہوں نے خود کو محدود نہیں کیابلکہ عوام کے درمیان رہیں۔ یہ حقیقت اس امر کی غماز ہے کہ محترمہ بینظیربھٹو زندگی کے آخری دنوں میں کس قدر مضبوط ارادے اور حوصلے کی مالک تھیں۔ کسی بھی بڑے لیڈر کے یہی بنیادی اوصاف ہوتے ہیں۔
یہی جرات مندی اور حوصلہ تھا جو 27 دسمبر 2007 کو انہیں اپنے مقتل لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسے میں لے گیا۔ بینظیر بھٹو نے وہاں جس عوامی انداز میں خطاب کیا، اس کا آج کل تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے خطاب کے بعد جب بینظیر بھٹو پارٹی کارکنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے گاڑی کی چھت سے باہر نکل رہی تھیں تو ایک نامعلوم شخص نے ان پر فائرنگ کر دی۔ اس کے بعد بینظیر کی گاڑی سے کچھ فاصلے پر ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا ۔ اس دھماکے میں بینظیر بھٹو کی گاڑی کو بھی شدید نقصان پہنچا لیکن گاڑی کا ڈرائیور اسی حالت میں گاڑی کو بھگا کر راولپنڈی جنرل ہسپتال لے گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملیں۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بینظیر کا سیاسی سفر بلاول بھٹو کی صورت آج بھی جاری ہے اور ہاریوں، کسانوں اور مزدوروں کے حق کے لئے لڑنے والی بھٹو کی بیٹی آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہیں۔