اسلام آباد ہائیکورٹ کا الیکشن کمیشن کو اسلام آباد میں کل الیکشن کرانے کا حکم
اسلام آباد ہائیکورٹ الیکشن کمیشن کو اسلام آباد میں کل الیکشن کرانے کا حکم دے دیا۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلام آباد میں بلدیاتی الیکشن تاخیر سے کرانے کے کیس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا ہے
عدالت نے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے۔عدالت نے الیکشن کمیشن کو 101یونین کونسلز پر31 دسمبر کو الیکشن کرانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن شیڈول کے مطابق انتخابات کرائے۔
کیس کی سماعت
اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلدیاتی الیکشن ملتوی ہونے کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس ارباب محمد طاہر نے درخواستوں پر سماعت کی، جب کہ عدالت میں الیکشن کمیشن حکام ، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی کے وکلا اور وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دُگل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل پیش ہوئے۔پی ٹی آئی کے وکیل سردار تیمور اسلم نے عدالت کے سامنے مؤقف پیش کیا کہ الیکشن سے صرف 11 دن پہلے یوسیز کی تعداد بڑھائی گئی، اتنے بڑے فیصلے سے پہلے الیکشن کمیشن سے مشورہ تک نہیں کیا گیا، الیکشن کمیشن نے ابتدائی طور پر حکومتی فیصلہ نہیں مانا، الیکشن کمیشن نے کہا موجودہ الیکشن پر نیا نوٹیفکیشن لاگو نہیں ہوگا۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ بلدیاتی قانون میں ترمیم کا بل ابھی تک ایکٹ نہیں بنا، آئین واضح ہے صدر کے دستخط ہونے تک ایکٹ نہیں بنتا، الیکشن کمیشن نے کہا عدالتی حکم پر الیکشن ملتوی کررہے ہیں، ہائیکورٹ نے الیکشن ملتوی کرنے کا کبھی نہیں کہا، پورا شہر انتخابات کیلیے تیار تھا الیکشن کمیشن بھی 27 دسمبر تک راضی تھا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے عدالت میں تفصیلی جواب پیش کیا گیا جس میں آئین کے آرٹیکل 140 اے اور الیکشن ایکٹ کی شق 219 میں ترمیم کی تجویز دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مقصد مرکز یا صوبائی حکومتوں کو الیکشن سے قریب قوانین میں ترمیم سے روکنا ہے۔الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کرانے کی آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں سنجیدہ ہیں، بروقت بلدیاتی انتخابات کا حکم دیا جو ہائیکورٹ نے کالعدم قرار دے دیا، سیکشن 219 ایک کے تحت لوکل گورنمنٹ قوانین مدنظر رکھ کر الیکشن کرائیں گے، جب الیکشن کی تیاری مکمل ہوجائے تو قوانین میں تبدیلی سے رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
الیکشن کمیشن نے اپنے جواب میں کہا کہ سیکشن 219 ایک اور 4 آپس میں متصادم ہیں، سیکشن 219 ایک صوبائی اور مرکز میں بلدیاتی الیکشن کا مینڈیٹ دیتا ہے، الیکشن کمیشن کے لیے 120 روز میں بلدیاتی انتخابات کرانا ضروری ہے، مرکزی و صوبائی حکومتیں قوانین بدلتی ہیں تو انتخابات میں مشکل ہوتی ہے۔
جسٹس ارباب طاہر نے پی ٹی آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کی درخواست منظور کرلیں تو کیا کل الیکشن ہوجائیں گے۔ جس پر پی ٹی آئی وکیل نے جواب دیا کہ پولنگ کی تاریخ کل کے بجائے پرسوں رکھ لیں، کل خود الیکشن کمیشن نے کہا صرف پولنگ کا سامان تقسیم کرنا ہے، ایک دن میں انتخابی سامان تقسیم کرلیں پرسوں پولنگ ہوجائے، پولنگ کی تاریخ تو پہلے بھی الیکشن کمیشن نے آگے کی تھی۔
الیکشن کمیشن حکام نے پی ٹی آئی وکیل کو جواب دیا کہ وہ ہم نے کرسمس کی چھٹیوں کیلیے تاریخ آگے کی تھی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دُگل نے اپنے دلائل میں مؤقف پیش کیا کہ وقت کی کمی کے باعث تحریری جواب جمع نہیں کراسکے، وزارت داخلہ نے آج ہی الیکشن کمیشن کے ساتھ میٹنگ رکھی ہے۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا حکومت اتنی نااہل ہوگئی کہ تحریری جواب نہیں دے سکتی، آپ میٹنگ کرتے رہیں ہم الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ معطل کردیتے ہیں، کل آپ کی رضا مندی سے آج کا وقت رکھا گیا تھا، صبح سے وقت تھا اسی وقت میٹنگ کیوں رکھی گئی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ صبح اور میٹنگز تھیں،جمعہ کے فوری بعد کا وقت بلا تاخیر رکھا۔
جسٹس ارباب طاہر نے استفسار کیا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب آپ کی یقین دہانیوں کا کیاہوا۔ جس پر منور اقبال نے کہا کہ یونین کونسلز کی تعداد بڑھانا یا ترمیم کرنا وفاقی حکومت کی صوابدید ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اس سال کے دوران اس صوابدید کا کتنی بار استعمال ہو چکا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس سے پہلے جون میں یونین کونسلز بڑھائی گئی تھیں، آبادی بڑھنے کے بعد یونین کونسلز کی تعداد بڑھائی۔
عدالت نے پھر استفسار کیا کہ مردم شماری 2017ء کے بعد نہیں ہوئی تو کس طرح پتہ چلا آبادی بڑھ گئی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل منور اقبال نے کہا کہ بھی الیکشن ہوگئے اور کل ترمیمی بل قانون بن گیا تو مسئلہ ہوگا، اس طرح میئر اور ڈپٹی میئر کے الیکشن ہی نہیں ہو سکیں گے، نیا ایکٹ تو پھر میئر کا انتخاب پولنگ والے دن ہی کرنے کا کہے گا۔
ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون نے دلائل میں درخواست گزار کے کنڈکٹ پر سوال اٹھا دیا، اور مؤقف پیش کیا کہ عدالت علی نواز اعوان کا اپنا کنڈکٹ بھی دیکھے، یہ رکن اسمبلی ہیں مگر وہاں جا کر کردار ادا نہیں کررہے، اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کی قانون سازی میں انہیں پارلیمنٹ ہونا چاہیے تھا۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کا اختیار ہے وہ یونین کونسلز بڑھا سکتی ہے۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ بھی دیکھیں کہ کس مرحلے پر یہ اختیار استعمال ہو سکتا ہے۔ جسٹس ارباب طاہر نے ریمارکس دیئے کہ کیس کا فیصلہ آج ہی سنایا جائے گا۔
عدالتی استفسار پر الیکشن کمیشن کے ڈی جی لاء نے بتایا کہ پرانے شیڈول پر الیکشن کرانے کیلئے سات سے دس روز درکار ہیں۔