تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے بنائی گئی جے آئی ٹی غیر قانونی ہے، پی ٹی آئی
پی ٹی آئی نے عمران خان پر حملے کی تحقیقات کے لئے وفاقی حکومت کی بنائی جے آئی ٹی کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر وزیر آباد میں حملہ کیس کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے۔
تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد نے وکیل اظہر صدیق ایڈوکیٹ کی وساطت سے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے، جس میں وفاقی حکومت ، پنجاب حکومت سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف پیش کیا گیا ہے کہ عمران خان پر حملے کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے بنائی گئی جے آئی ٹی غیر قانونی ہے، پنجاب حکومت نے تحقیقات کے لیے پہلے سے جے آئی ٹی بنا رکھی ہے، اور ایک جے آئی ٹی کی موجودگی میں دوسری جے آئی ٹی نہیں بنائی جا سکتی۔
یاسمین راشد نے اپنی درخواست میں عدالت سے استدعا کی ہے کہ لاہور ہائیکورٹ وفاقی حکومت کی جانب سے بنائی گئی جے آئی ٹی کالعدم قرار دے، اور درخواست کے حتمی فیصلے تک جے آئی ٹی کو کام سے روکا جائے۔
واضح رہے کہ پنجاب حکومت کی جے آئی ٹی کے اختلافات اور تنازعات کے ساتھ ملزم نوید کے وکیل کے اعتراضات کے بعد 23 جنوری کو وفاقی وزارت داخلہ نے نئی جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے۔
تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد تشکیل دی گئی ہے، اور اس حوالے سے وزارت داخلہ نے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق جے آئی ٹی کے کنونئیر آئی جی ریلوے راؤ سردار علی خان ہوں گے، جب کہ ڈی آئی جی پنجاب پولیس کامران عادل، اور آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے نمائندے بھی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں شامل ہوں گے۔
اس سے قبل صوبائی حکومت چار بار جے آئی ٹی ٹیم میں تبدیلی کرچکی تھی، تحقیقات کرنے والی ٹیم کے چار ارکان نے صوبائی جے آئی ٹی کے کنونئیر غلام محمود ڈوگر سے اختلاف کیا تھا جس پر ارکان کو ہی بدل دیا گیا اور کنونئیر غلام محمود ڈوگر برقرار رہے۔
22 جنوری کو بھی محکمہ داخلہ پنجاب نے جے آئی ٹی سربراہ کے ساتھ اختلافات رکھنے والے تمام ارکان کو تبدیل کردیا اور نئی جے آئی ٹی میں کوئی سینیئر افسرشامل نہیں کیا گیا۔
نئی جے آئی ٹی میں ڈی پی اوڈی جی خان کمل، ایس پی انجم کمال، ڈی ایس پی سی آئی اے جھنگ ناصر نواز کو شامل کیا گیا۔ اور نئے ارکان کی تقرری کے نوٹیفکیشن پر 14جنوری کی تاریخ درج کی گئی، جب کہ کسی بھی محکمہ کے چوتھے رکن کی تقرری کا فیصلہ جے آئی ٹی کے سپرد کردیا گیا۔
سابق ممبران نے جے آئی ٹی سربراہ غلام محمود ڈوگر کی تفتیش اور طریقہ کار پر اعترضات کرتے ہوئے ان پرسیاسی بنیادوں پر تفتیش کرنے کے الزامات بھی عائد کئے تھے۔
دوسری جانب فائرنگ کرنے والے مرکزی ملزم نوید کے وکیل میاں داود نے بھی نئی جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، اور کہا کہ ایک بار پھر پی ٹی آئی ورکرز پر مشتمل نئی جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے۔
میاں داؤد نے الزام عائد کیا کہ نئی جے آئی ٹی زمان پارک میں بیٹھ کر بنائی گئی ہے، غلام محمود ڈوگر کا جےآئی ٹی سربراہ برقرار رہنا بدنیتی پرمبنی ہے۔