عدالت عظمیٰ نے چیف الیکشن کمیشن سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی
عدالت حکم دے تو تبادلے روک دیں گے لیکن الیکشن کی تاریخ خود دیں تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی
اسلام آباد: انتخابات کے لیے پیسہ مانگے توانکار ، عدلیہ سے آر اوز مانگا تو انکار ، آرمی سے سیکیورٹی مانگی تو انکار کر دیا گیا
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ مجھے اپنے اختیارات اور آئینی تقاضے پر عمل کرنے سے روکا جا رہا ہے۔
سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کیس کی سماعت کے دوران چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ کچھ باتیں عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، آرمی سے سیکیورٹی مانگی تو انکار کر دیا گیا، عدلیہ سے آر اوز مانگے تو انہوں نے انکار کر دیا اور انتخابات کے لیے پیسہ مانگا اس سے بھی انکار کر دیا گیا۔
سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ میرے اختیارات کو کم کیا جا رہا ہے، ایسے حالات میں کس طرح فری فیئر الیکشن کروائے جائیں۔ اگر عدالت ٹرانسفرز کو فری الیکشن میں رکاوٹ سمجھتی ہے تو نہیں کریں گے۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ عدالت حکم دے تو تبادلے روک دیں گے لیکن الیکشن کی تاریخ خود دیں تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ تفصیلی رپورٹ دیں جائزہ لیں گے کہ کیا مشکلات ہیں لیکن 37 اضلاع ہیں سب میں ٹرانسفرز کردو یہ نہیں ہوگا، الیکشن کا اعلان کیا نہیں اور ٹرانسفرز کر دیں، 90 روز میں الیکشن آئین کی منشا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین ہر صورت 90 دن میں انتخابات کروانے کا پابند کرتا ہے اور انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، مقررہ وقت میں انتخابات نہ ہوئے تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید ریمارکس دیے کہ 90 دن میں انتخابات کے حوالے سے آئین میں کوئی ابہام نہیں اور شفاف انتخابات کروانا صرف الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ نگراں حکومت تقرر و تبادلے نہیں کر سکتی اور نگراں حکومت کو تبادلہ مقصود ہو تو ٹھوس وجوہات کے ساتھ درخواست دے گی، الیکشن کمیشن وجوہات کا جائزہ لیکر مناسب حکم جاری کرنے کا پابند ہے۔
وکیل عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ غلام محمود ڈوگر کو الیکشن کمیشن کے زبانی حکم پر تبدیل کیا گیا، جس پر جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا زبانی احکامات پر تبادلے کی بات درست ہے؟
چیف الیکشن کمشنر نے بتایا کہ چیف سیکریٹری نے 23 جنوری کو فون کرکے تبادلے کے متعلق کہا تھا اور تحریری درخواست آنے پر 6 فروری کو باضابطہ اجازت نامہ دیا۔ جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو سپریم کورٹ کے احکامات کا علم نہیں تھا؟ چیف الیکشن کمشنر نے جواب دیا کہ جو ریکارڈ ملا اس میں سپریم کورٹ احکامات کا ذکر نہیں تھا، تبادلوں کے حوالے سے صوبائی حکومتوں کو گائیڈ لائنز جاری کی ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریماریس دیے کہ آپ صرف آئین اور قانون کے پابند ہیں اپنی پالیسیوں کے نہیں۔
عدالت عظمیٰ نے چیف الیکشن کمیشن سکندر سلطان راجہ سے تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔