فاضل جج پر مبینہ بدعنوانی، ٹیکس تفصیلات میں ردوبدل اور اقربا پروری کے الزام
سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔
میاں داؤد ایڈووکیٹ کی جانب سے سیکریٹری سپریم جوڈیشل کونسل کو جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف ریفرنس بھجوایا گیا ہے۔
ریفرنس میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مبینہ بدعنوانی، ٹیکس تفصیلات میں ردوبدل، اقربا پروری اور ایک سیاسی جماعت کے لیے نرم گوشہ رکھنے جیسے الزامات لگائے گئے ہیں، فاضل جج صاحب اور ان کے اہلِ خانہ کی جائیدادوں کی تحقیقات کی استدعا کی گئی ہے۔
ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس مظاہر نقوی نے مبینہ طور پر 2021 میں سالانہ گوشواروں میں 3 مرتبہ ترامیم کی، یہ ترامیم گوجرانوالہ ڈی ایچ اے میں گھر کی مالیت ایڈجسٹ کرنے کے لیے کی گئی۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس مظاہر نقوی نے اس گھر کی مالیت پہلے 47 لاکھ، پھر 6 کروڑ اور پھر 72 کروڑ روپے ظاہر کی۔
میاں داؤد ایڈووکیٹ کا موقف
ریفرنس کے حوالے سے میاں داؤد ایڈووکیٹ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے 4 گزارشات سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے رکھی ہیں اور استدعا کی ہے کہ ان پر تحقیقات کی جائے۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ جج کے سپریم کورٹ تعیناتی کے بعد اثاثے کئی گنا بڑھے، جسٹس مظاہر نقوی کا سپریم کورٹ ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک کنال ، لاہور گلبرگ تھری 2 کنال 4 مرلے اور سینٹ جان پارک لاہور کینٹ میں 4 کنال کے پلاٹ ہیں، ان کے اثاثوں میں گوجرانوالہ الائیڈ پارک میں غیر ظاہر شدہ پلازہ بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک سپریم کورٹ کے جج کی تنخواہ 15لاکھ روپے بنتی ہے، 15 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ والا جج 35 کروڑ روپے کی جائیداد کیسے خرید سکتا ہے۔ ہم نے استدعا کی ہے کہ جج کے خلاف کارروائی کی جائے، انہیں عہدے سے ہٹایا جائے۔
میاں داؤد ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم نے مطالبہ کیا ہے کہ معزز جج مظاہر نقوی کے فرنٹ مین زاہد رفیق کے خلاف کارروائی کی جائے، زاہد رفیق نے جسٹس مظاہر نقوی کی صاحبزادی کے تعلیمی اخراجات کی مد میں 10 ہزار پاؤنڈز بیرون ملک منتقل کئے گئے، یہ رقم گزشتہ برس منتقل کی گئی۔
معزز جج کے 2 صاحبزادے وکیل ہیں، دونوں کی وکالت چلِانے کے لئے وہ اثر انداز ہوتے ہیں اور فرنٹ مین کے ذریعے تقرر و تبادلے کرواتے ہیں۔
معاملے کا پس منظر
کچھ روز قبل چند آڈیوز منظر عام پر آئی تھیں ، جن میں سے ایک میں مبینہ طور پر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ اور جسٹس مظاہر نقوی ہیں۔ دوسری آڈیو میں پرویز الہیٰ مبینہ طور پر ایک وکیل کو کہتے ہیں کہ کیس کی سماعت جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی عدالت میں لگوائیں، تیسری آڈیوز میں سی سی پی او لاہور اور تحریک انصاف کی رہنما یاسمین راشد کی مبینہ گفتگو ہے۔
اس کے علاوہ چند یوٹیوب چینلز پر بھی جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر ان کی مبینہ جائیداد کے حوالے سے الزامات لگائے گئے تھے۔