عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کیلئے اسلام آباد سے لاہور آئی پولیس ٹیم واپس روانہ
سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے چیئرمین عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کیلئے اسلام آباد سے لاہور آئی پولیس ٹیم واپس روانہ ہوگئی۔ پولیس اہلکار جب عمران خان کے کمرے میں پہنچے تو وہ کمرے میں موجود نہیں تھے۔
اسلام آباد پولیس توشہ خانہ کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کو ممکنہ طور پر گرفتار کرنے لاہور پہنچی تھی۔
اسلام آباد پولیس کی ٹیم ایس پی سٹی حسین طاہر کی سربراہی میں لاہور پہنچی۔ ممکنہ گرفتاری کے پیش نظر عمران خان نے اپنی لیگل ٹیم کو بھی زمان پارک طلب کیا۔
https://twitter.com/MeghUpdates/status/1632295349217013761?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1632295349217013761%7Ctwgr%5E1c181bb2f374f305627c0e3d26140acd35cff44d%7Ctwcon%5Es1_&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.samaa.tv%2Fnews%2F40016964
زمان پارک پہنچو
ممکنہ گرفتاری اور وارنٹ کے اطلاع ملتے ہی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں کی جانب سے کارکنان کو فوری طور پر زمان پارک پہنچنے کی ہدایات دی گئیں۔
Lahore: Police reached Zaman Park to arrest Imran Khan. PTI has appealed to workers to immediately reach Zaman Park. pic.twitter.com/skViMwgcSc
— Sandeep Panwar (@tweet_sandeep) March 5, 2023
مائیکرو بلاگنگ سائٹ پر حماد اظہر کی جانب سے ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا گیا کہ “ تمام کارکنان فوری طور پر زمان پارک پہنچے“۔
https://twitter.com/PTIOfficialISB/status/1632292247268990978?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1632292247268990978%7Ctwgr%5E1c181bb2f374f305627c0e3d26140acd35cff44d%7Ctwcon%5Es1_&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.samaa.tv%2Fnews%2F40016964
دوسری جانب پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چوہدری کی جانب سے بھی ردعمل میں کہا کہ ”عمران خان کی گرفتاری کی کوئی بھی کوشش حالات کو شدید خراب کر دے گی، میں اس نا اہل اور پاکستان دشمن حکومت کو خبردار کرنا چاہ رہا پاکستان کو مزید بحران میں نہ دھکیلیں اور ہوش سے کام لیں، کارکنان زمان پارک پہنچ جائیں“۔
تمام کارکن فوری طور پر زمان پارک پہنچیں۔
— Hammad Azhar (@Hammad_Azhar) March 5, 2023
ترجمان اسلام آباد پولیس
سما سے خصوصی گفتگو میں ترجمان اسلام آباد پولیس کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم پر عمران خان کی گرفتاری کیلئے اسلام آباد پولیس لاہور پہنچی تھی۔ اسلام آباد پولیس اپنی حفاظت میں عمران خان کو اسلام آباد منتقل کرے گی۔
عمران خان کی گرفتاری کی کوئ بھی کوشش حالات کو شدید خراب کر دے گی، میں اس نا اھل اور پاکستان دشمن حکومت کو خبردار کرنا چاہ رہا پاکستان کو مزید بحران میں نہ دھکیلیں اور ہوش سے کام لیں، کارکنان زمان پارک پہنچ جائیں
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) March 5, 2023
ترجمان نے یہ بھی کہا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ تمام کارروائی مکمل کی جا رہی ہے۔ عمران خان گرفتاری سے گریزاں ہیں۔ ایس پی کمرے میں گئے مگر وہاں عمران خان موجود نہیں۔
واضح رہے کہ ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے۔
گزشتہ سماعت میں کیا ہوا تھا؟
عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی گزشتہ 28 فروری کو ہونے والی عدالت نے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ عمران خان کے وکیل نے کہا تھا کہ کچھ وجوہات کی بنا پر وہ حاضر نہیں ہو سکیں گے۔ تاہم عدالت نے ان کی حاضری سے استثنا کی درخواست مسترد کردی تھی محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک وہ ( عمران خان ) پیش نہیں ہوں گے اس وقت تک یہ وارنٹ رہیں گے ۔
عمران خان کے وکیل نے سماعت 5 روز کے لیے ملتوی کرنے کی استدعا کی تو جج نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جوڈیشل کمپلیکس میں پیش ہوں تو ادھر کے لیے ٹائم نہیں رہے گا، یہ کونسا طریقہ ہے؟ ادھر فرد جرم عائد ہونا ہے ادھر آجائیں، فرد جرم عائد ہوجائے پھر چلے جائیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے بھی سماعت ملتوی کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ عدالت کا مسئلہ نہیں عمران خان کہاں سے آرہے ہیں، یہ عدالت میں پیش ہی نہیں ہونا چاہتے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہم اس کیس پر ہر دن سماعت کے لیے تیار ہیں، عمران خان دوسری عدالتوں میں پیش ہو رہے تو اس عدالت میں کیوں نہیں؟۔ عدالت نے کیس کی سماعت 7 مارچ تک ملتوی کردی تھی۔ قبل ازیں عدالت نے عمران خان کے پیش نہ ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ہم نے ساڑھے تین بجے تک عمران خان کا انتظار کیا مگر وہ پیش نہیں ہوئے اس لیے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔
نااہل قرار
واضح رہے کہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے متفقہ فیصلہ سنایا تاہم فیصلہ سناتے وقت 4 ارکان موجود تھے کیونکہ رکن پنجاب بابر حسن بھراونہ طبعیت خرابی کے باعث آج کمیشن کا حصہ نہیں تھے۔
عمران خان کے وکیل علی بخاری نے کہا کہ خواجہ حارث اس کیس میں عمران کے وکیل ہیں، وہ آج ڈسٹرکٹ کورٹ نہیں آسکتے، اگر عمران خان عدالتی وقت میں جوڈیشل کمپلیس سے نکل آئے تو ہم پیش ہو جائیں گے۔
عدالت نے توشہ خانہ سے متعلق الیکشن کمیشن فوجداری کارروائی کیس میں وقفہ کرتے ہوئے سماعت ساڑھے تین بجے تک ملتوی کی تھی۔
علاوہ ازیں توشہ خانہ ریفرنس فیصلے کے بعد احتجاج کے تناظر میں عمران خان کے خلاف اقدامِ قتل کی دفعہ کے تحت تھانہ سیکریٹریٹ میں مقدمہ درج ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی نااہلی کے خلاف احتجاج کرنے پر سابق وزیر اعظم، اسد عمر اور علی نواز سمیت 100 سے زائد کارکنان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
توشہ خانہ کا مطلب کیا ہے؟
توشہ خانہ فارسی زبان کا لفظ ہے. ریختہ ڈکشنری کے مطابق اس کے معنی ہیں وہ مکان جہاں امیروں کے لباس، پوشاک اور زیورات وغیرہ جمع رہتے ہیں۔ اردو لغت کے مطابق توشہ خانہ کے معنیٰ توشک خانہ یعنیٰ ساز و سامان کا پلندہ کے ہیں۔
زمان پارک کے باہر لگے حفاظتی بیرئیر ہٹا دیئے گئے
توشہ خانہ کیا ہے؟
پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے حکومتوں کی جانب سے ایک خاص مقام کو مختص کیا جاتا ہے، جہاں دوسری ریاستوں کے دوروں پر جانے والے حکمران یا دیگر اعلیٰ عہدیداران کو ملنے والے بیش قیمت تحائف محفوظ کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی توشہ خانہ ایسی جگہ ہے جہاں دوسرے ممالک سے ملنے والے قیمتی تحائف محفوظ ہوتے ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات
گزشتہ حکومت کے دور میں ایک شہری کی جانب سے پاکستان انفارمیشن کمیشن (پی آئی سی) میں درخواست دائر کی گئی تھی کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ملنے والے تمام تحفے، خاص طور پر وہ تحائف جو وزیر اعظم اور وزرا نے رکھے، ان کی تفصیل فراہم کی جائے۔
قانونی ماہرین کے مطابق حکومت یہ تفصیل جمع کروانے کی پابند بھی ہے مگر حکومت نے پی آئی سی میں یہ جواب جمع کروایا تھا کہ غیر ملکی تحائف کی تفصیل سے ان ممالک کے درمیان تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں، اس لیے انہیں ملکی مفاد میں جاری نہیں کیا سکتا۔
توشہ خانے کے تحائف کا کیا استعمال ہوتا ہے؟
سرکاری طور پر ملنے والے تمام تحائف توشہ خانہ میں جمع کروائے جاتے ہیں۔ تاہم جمع کروانے کے بعد 30 ہزار روپے تک مالیت کے تحائف صدر، وزیراعظم یا جس بھی شخص کو تحفتاً ملا ہو وہ مفت حاصل کر سکتا ہے۔
تاہم 30 ہزار سے زائد مالیت کے تحائف کے لیے ان شخصیات کو اس کی قیمت کے تخمینے کا نصف ادا کرنا لازم ہوتا ہے جس کے بعد وہ اس کی ملکیت میں آ جاتا ہے۔ قیمت کا تخمینہ ایف بی آر اور پرائیویٹ ماہرین لگاتے ہیں۔
پاکستان میں صدر مملکت، وزیراعظم، وزرا، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، صوبائی وزرائے اعلی، ججز، سرکاری افسران اور حتی کہ سرکاری وفد کے ہمراہ جانے والے عام افراد کو بیرون ملک دورے کے دوران ملنے والے تحائف توشہ خانہ کے ضابطہ کار 2018 کے تحت کابینہ ڈویژن کے نوٹس میں لانا اور یہاں جمع کروانا ضروری ہیں۔ جس کے بعد یا تو انہیں نصف قیمت پر خریدا جا سکتا ہے یا پھر انہیں سرکاری طور پر نیلام کر دیا جاتا ہے۔