ملک میں پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مافیا نے پیٹرول سپلائی کرنے والی مین لائن میں متعدد مقامات پر کلپ لگاکر چوری شروع کر دی ہے۔
اب تک کراچی کے مختلف تھانوں میں پیٹرول سپلائی کرنیوالی کمپنیوں کی مدعیت میں پیٹرول چوری کے 5 مقدمات درج ہوچکے ہیں۔
کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم سے اندرون ملک پیٹرول سپلائی کرنے والی 2 مین لائنوں میں کلپ لگا کر پیٹرول چوری کیا جارہا ہے، اس غیر قانونی کاروبار سے منسلک افراد مین سپلائی لائن میں ڈرل کرکے سوراخ کرتے ہیں اور کلپ لگا کر بند کردیتے ہیں۔
کراچی سے دو لائنوں، کراچی محمود کوٹ (کے ایم کے) پائپ لائن اور کورنگی پورٹ قاسم لنک (کے پی کیو ایل) پائپ لائن، کے ذریعے پورے ملک کو پیٹرول کی ترسیل کی جاتی ہے۔
کے ایم کے کیماڑی میں واقع کراچی پورٹ سے شروع ہوتی ہے جس کی کل لمبائی 870 کلومیٹر ہے اور اس سے سالانہ 6 ملین ٹن پیٹرول ملک بھر میں سپلائی کیا جاتا ہے جس کو پاک عرب پائپ لائن کمپنی (پی اے آر سی او) لمیٹڈ چلارہی ہے۔
دوسری طرف کے پی کیو ایل، بن قاسم میں واقع پورٹ قاسم سے شروع ہو رہی ہے جس کی کل لمبائی 786 کلومیٹر ہے اور اس سے سالانہ آٹھ ملین ٹن پیٹرول سپلائی کیا جاتا ہے۔ کے پی کیو ایل کو بھی پاک ارب پائپ لائن کمپنی لمیٹڈ (پی اے پی سی او) چلا رہی ہے۔
مین سپلائی لائن سے پیٹرول چوری کا پہلا مقدمہ نمبر 448/22 مورخہ 24 نومبر 2022ء کو تھانہ بن قاسم میں پی اے پی سی او کی انتظامیہ کی مدعیت میں درج ہوا۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق نامعلوم ملزمان پورٹ قاسم انڈسٹریل ایریا میں واقع سیوریج نالے کے قریب کلپ لگا کر پیٹرول کیا جاتا رہا ہے۔
اسی سلسلے میں ایک اور مقدمہ نمبر 34/2023 مورخہ 29 جنوری کو تھانہ شرافی گوٹھ میں پی اے آر سی او کی انتظامیہ کی مدعیت میں درج ہوا۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق لانڈھی میں واقع مانسہرہ کالونی میں ایک گھر، جس کے نیچے سے پائپ لائن گزر رہی ہے، میں کھدائی کرکے مین سپلائی لائن میں کلپ لگا کر پیٹرول چوری کیا جارہا تھا۔
اسی سلسلے میں تھانہ شاہ لطیف ٹاؤن میں 2 اور تھانہ درخشاں میں ایک مقدمہ درج ہوا ہے۔ گزشتہ روز شاہ لطیف پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے پیٹرول چوری میں ملوث 5 افراد کو گرفتار کرلیا تاہم ملزمان کے 3 ساتھی بھاگنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
پیٹرول کیسے چوری ہورہا ہے؟
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مین سپلائی لائن سے پیٹرول کیسے چوری ہورہا ہے؟، شاہ لطیف ٹاؤن کے ایس ایچ او مظہر اقبال، جنہوں نے اس غیر قانونی کاروبار سے منسلک 5 افراد کو گرفتار کیا ہے، نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا ہے کہ پیٹرول سپلائی لائنز کو زیادہ تر سیوریج لائنوں سے نکالا گیا ہے، جہاں ملزمان آسانی سے کلپ لگا کر پیٹرول چوری کرلیتے ہیں۔
لیکن، مظہر اقبال کے مطابق، کچھ کلپ رہائشی علاقوں میں بھی لگائے گئے ہیں۔ ایس ایچ او کے مطابق، تھانہ شاہ لطیف ٹاؤن میں 11 مارچ کو پیٹرول چوری کا مقدمہ درج ہوا تھا، جس میں مدعی مقدمہ نے الزام عائد کیا کہ نامعلوم ملزمان نے 14 فٹ کھدائی کرکے پائپ لائن میں سوراخ کرنے کے بعد کلپ لگایا تھا۔
پیٹرول چوری میں کون ملوث ہے؟
ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی پی) ساؤتھ زون عرفان بلوچ نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ اب تک تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان واقعات میں کمپنی ملازمین ہی ملوث ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عام انسان کو یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ پیٹرول سپلائی لائن کہاں سے گزر رہی ہے۔
عرفان بلوچ نے بتایا کہ سی ویو کے پاس سیوریج لائن میں سوراخ کرکے کلپ لگایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ درخشاں پولیس کے ایس ایچ او کو بھی معلوم نہیں تھا کہ پی اے آر سی او کی مین لائن یہاں سے گزر رہی ہے۔
ڈی آئی جی پی کے مطابق پیٹرول کوئی بڑی مقدار میں چوری نہیں ہورہا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملزمان نے ڈرل کرنے کے بعد ایک انچ کا کلپ لگایا اور سی ویو والی جائے وقوعہ سے کچھ ڈرم ملے ہیں جس میں پیٹرول بھرا گیا تھا تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ چوری بڑے پیمانے پر نہیں ہو رہی۔
دوسری طرف تھانہ شاہ لطیف ٹاؤن کے ایس ایچ او مظہر اقبال کا بھی یہ ہی ماننا ہے کہ اس غیرقانونی کاروبار میں کمپنی ملازمین ہی ملوث ہیں۔ انہوں نے دلیل دیتے ہوئے بتایا کہ عام انسان کو یہ معلوم نہیں کہ کس وقت پیٹرول کی سپلائی میں تعطل ہے کیونکہ یہ بہت ہی مشکل ہے کہ دوران سپلائی پائپ لائن میں ڈرل کرکے سوراخ کیا جاسکے۔
پولیس افسران کے مطابق دوران سپلائی ڈرلنگ سے آگ لگنے اور پائپ لائن پھٹنے کا خدشہ ہے، اسی لئے سوراخ کرکے کلپ اسی وقت لگائے جاتے ہیں جب پیٹرول کی سپلائی معطل ہو۔
کراچی میں،پیٹرول سپلائی لائنوں سے پیٹرول کی چوری ایک سنجیدہ شکل اختیار کرگیا ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیرصدارت ہونیوالے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں اسے ایجنڈے میں شامل کیا گیا اور اس معاملے پر سندھ ہوم سیکریٹری کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔