اگر سیاسی جماعتیں انتخابات کی تاریخ بدلنا چاہتی ہیں تو عدالت ان کے ساتھ ہے: چیف جسٹس
یکطرفہ کچھ نہیں ہوسکتا، سیاسی جماعتوں کو دل بڑا کرنا ہوگا
اسلام آباد: چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آجائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے
سپریم کورٹ میں ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ کرانےکی درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آجائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے، اگر سیاسی جماعتیں انتخابات کی تاریخ بدلنا چاہتی ہیں تو عدالت ان کے ساتھ ہے، تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو نوٹس جاری کر رہے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت سے فنڈز کی فراہمی سے متعلق دوبارہ جواب طلب کرلیا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر انتخابات کے لیے فنڈز فراہم نہ کیےگئے تو سنگین نتائج آسکتے ہیں، وزارت دفاع کی ملک میں الیکشن ایک ساتھ کرانے کی درخواست ناقابل سماعت ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے درخواستوں کی سماعت کی، 3رکنی بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
وزارت دفاع اور دو شہریوں کی جانب سے ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ کرانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے۔
دوران سماعت جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے وزیراعظم پرعدم اعتماد کے بھی نتائج ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نےکہا کہ اگر انتخابات کے لیے فنڈز فراہم نہ کیے گئے تو شدید سنگین نتائج آسکتے ہیں، مولا ہمیں ہمت دے کے صیح فیصلے کریں اور ہمیں نیک لوگوں میں شامل کرے اور جب ہم چلے جائیں تو ہمیں اچھے الفاظ میں یاد کیا جائے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ معاملہ بہت لمبا ہوتا جارہا ہے، حکومت نے اپنا ایگزیکٹو کام پارلیمان کو دیا ہے یا نہیں؟
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا کبھی سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری لینے میں حکومت کوشکست ہوئی؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سال 2013 میں کٹوتی کی تحریکیں منظور ہوچکی ہیں، موجودہ کیس میں گرانٹ جاری کرنے سے پہلے منظوری لینے کے لیے وقت تھا۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ وزارت خزانہ کی ٹیم نے بار بار بتایا کہ سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری بعد میں لی جاتی ہے، وزارت خزانہ نے آئین کے آرٹیکل 84 کا حوالہ دیا تھا،کیا آپ کا کیس یہ ہےکہ حکومت ذمہ داریوں کی ادائیگی میں سنجیدہ ہے لیکن پارلیمنٹ نے منع کر دیا؟ وزیراعظم کوانتخابات کے لیے فنڈز کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ کی اکثریت کو اعتماد میں لینا تھا، وزیراعظم ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہناتھا کہ امید کرتے ہیں کہ حکومت آئینی عمل کے لیے فنڈز کی فراہمی پر مثبت جواب دے گی، سکیورٹی صورتحال سے متعلق ہمیں بتایا گیاہے،الیکشن کمیشن کو کیوں لگتا ہے کہ ماضی سے اب صورتحال بہت خراب ہے؟ماضی میں دہشت گردی کے دوران بھی الیکشن ہوا، محترمہ بینظیربھٹو کی شہادت کے سال بھی انتخابات ہوئے تھے۔
جسٹس منیب اختر نےکہا کہ وزیراعظم کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہونا لازمی ہے، اٹارنی جنرل صاحب سمجھنے کی کوشش کریں، معاملہ بہت سنجیدہ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے پہلے انتظامی امور قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی کو بھجوانےکی کوئی مثال نہیں ملتی، انتخابی اخراجات ضروری نوعیت کے ہیں، غیر اہم نہیں، حکومت کا گرانٹ مسترد ہونےکاخدشہ اسمبلی کے وجودکے خلاف ہے، کون گارنٹی دے گا کہ 8 اکتوبر کو حالات پر امن ہوں گے؟ وزارت دفاع کا جواب تسلی بخش نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے اکتوبر تک الیکشن نہیں ہوسکتے، الیکشن کمیشن نے ایک ساتھ الیکشن کرانے کا بھی کہا ہے، الیکشن کمیشن کی اس بات پرکئی سوالات جنم لیتے ہیں، الیکشن کمیشن کی آبزرویشن کی بنیاد سکیورٹی کی عدم فراہمی ہے، دہشت گردی ملک میں 1992 سے جاری ہے،1987، 1991، 2002، 2008، 2013 اور 2018 میں الیکشن ہوئے، اب ایسا کیا منفرد خطرہ ہے جس کے باعث الیکشن نہیں ہوسکتے؟
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پہلے ایک ساتھ تمام سکیورٹی فورسز نے فرائض سرانجام دیے تھے، اب دو صوبوں میں الیکشن الگ ہوں گے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع نے بھی اندازہ ہی لگایا ہے، حکومت محض اندازوں پر نہیں چل سکتی۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں جنگ کی صورتحال میں بھی ایک دن انتخابات میں تاخیر نہیں ہوئی تھی، کیا آئین کہیں پر یہ مینڈیٹ دیتا ہےکہ اسمبلی تحلیل ہونےکے بعد اگلے سال انتخابات کرائے جائیں؟ عدالت کوکہاں اختیار ہےکہ الیکشن اگلے سال کروانےکا کہے؟
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال ایک حکومت کا خاتمہ ہوا تھا، عدالت نوٹس نہ لیتی تو قومی اسمبلی تحلیل ہوچکی تھی، صوبائی اسمبلیوں کے ہوتے قومی اسمبلیوں کے انتخابات بھی تو ہونے ہی تھے، آئین میں اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کا وقت مقرر ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن سے متعلق کیس کی سماعت27 مارچ کو شروع ہوئی، ہمیں 27 مارچ سے میتھ میٹکس میں الجھایا گیا، تین چار کا تناسب اور بینچ چھوٹا بنے یا بڑا کا معاملہ لایا گیا، بینچ ٹوٹے اور سیاسی جماعتوں نے کارروائی کا بائیکاٹ کیا، اس وقت ہمیں یہ سب وجوہات نہیں بتائی گئیں، اٹارنی جنرل صاحب،آپ کے توسط سے ڈی جی ملٹری آپریشنز نے ہمیں بریفنگ دی، ڈی جی آئی ایس آئی اور سیکریٹری دفاع بھی بریفنگ میں موجود تھے، عسکری حکام کی بریفنگ بہت زبردست تھی، بریفنگ سے پتہ چلا کہ اصل صورتحال کیا ہے، جب کیس چل رہا تھا تب کوئی ہمیں بریفنگ دینے نہ آیا، سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی اس کے بعد بریفنگ دی گئی، اب کیس کا فیصلہ آچکا ہے اب پیچھے نہیں ہٹ سکتے، اب آگے بڑھنا ہے۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ کیا آرٹیکل 245 کےتحت فوج سول حکومت کی مدد کو آتی ہے؟ اٹارنی جنرل نےکہا کہ آرٹیکل 245 کےتحت بنیادی حقوق معطل ہوتے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا 2018 کے انتخابات میں بنیادی حقوق معطل تھے؟وفاقی حکومت آرٹیکل 245 کا اختیار کیوں استعمال نہیں کر رہی؟کیا آئین بالادست نہیں ہے؟ افواج نےملک کے لیے جانوں کی قربانیاں دی ہیں، افواج پاکستان کا تو سب کو شکر گزار ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نےکہا کہ الیکشن کمیشن اور وزارت دفاع کی درخواستیں فیصلے واپس لینےکی بنیاد نہیں، الیکشن کمیشن نے پہلےکہا وسائل دیں الیکشن کروالیں گے، اب الیکشن کمیشن کہتا ہے ملک میں انارکی پھیل جائےگی، الیکشن کمیشن پورا مقدمہ دوبارہ کھولنا چاہتا ہے، وزارت دفاع کی رپورٹ میں عجیب سی استدعا ہے، کیا وزارت دفاع ایک ساتھ الیکشن کرانےکی استدعا کرسکتی ہے؟ وزارت دفاع کی درخواست ناقابل سماعت ہے، ٹی وی پر سنا ہے وزرا یہ بھی کہتے ہیں اکتوبر میں بھی الیکشن مشکل ہے۔
اٹارنی جنرل منصورعثمان کا کہنا تھا کہ کل بلاول بھٹو اور آج وزیراعظم سے ملاقات کی،کوشش کر رہے ہیں کہ ملک میں سیاسی ڈائیلاگ شروع ہو، ایک کے علاوہ تمام حکومتی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات پرآمادہ ہیں، بلاول بھٹو آج مولانا فضل الرحمان سے مل کر مذاکرات پر قائل کریں گے، معاملات سلجھ گئے تو شاید انتخابات کے لیے اتنی سکیورٹی کی ضرورت نہ پڑے، تمام سیاسی جماعتیں مذاکرات پر آمادہ ہو رہی ہیں، امیرجماعت اسلامی بھی شہبازشریف اور عمران خان سے ملے، فریقین نے مذاکرات کے لیےکمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں، عدالت کچھ مہلت دے تو معاملہ سلجھ سکتا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی بات میں وزن ہے، منجمد سیاسی نظام چلنا شروع ہو رہا ہے،14 مئی قریب آچکا ہے، سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آجائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے، اگر سیاسی جماعتیں انتخابات کی تاریخ بدلنا چاہتی ہیں تو عدالت ان کےساتھ ہے، آئینی عمل آگے چلتا رہنا چاہیے، عید کی 5 چھٹیاں آرہی ہیں، یہ معاملہ مزید طویل نہیں ہونا چاہیے، عیدکی 5 چھٹیاں بھی زیادہ معلوم ہو رہی تھی لیکن ساتھی ججز نےکہا کہ پرسکون ہونے کے لیے ضروری ہیں۔
انتخابات ایک ساتھ کرانے کی درخواست میں وکیل شاہ خاور روسٹرم پر آگئے۔
شاہ خاور کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلہ کبھی ایک وجہ سے نافذ نہیں ہوسکا کبھی دوسری وجہ سے، عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ضروری ہے،لوگ کنفیوز اور ٹینشن میں ہیں، عوام کو ہیجانی کیفیت سے نکالنے کے لیے درخواست دائرکی ہے، ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہئیں، انتخابات الگ الگ ہوئے تو کئی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی، صوبوں میں منتخب حکومتیں الیکشن پر اثر انداز ہوں گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جب بحث ہورہی تھی تو اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ کیوں نہیں اٹھایا؟اٹارنی جنرل پتہ نہیں کس کےکہنے پر4/3 پر دلائل دیتے رہے، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گےکس نے ان کو یہ موقف اپنانے سے روکا۔
وکیل شاہ خاور نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ابھی بھی متفق ہوجائیں تو آئیڈیل حالات ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مذاکرات کی بات ہے تو 8 اکتوبر پر ضد نہیں کی جاسکتی، یکطرفہ کچھ نہیں ہوسکتا، سیاسی جماعتوں کو دل بڑا کرنا ہوگا، انتخابات کے لیے 90 دن کی میعاد 14 اپریل کو گزر چکی، آئین کے مطابق 90 دن میں انتخابات کرانے لازم ہیں، آپ کے مطابق یہ سیاسی انصاف کا معاملہ ہے جس میں فیصلے عوام کرےگی، آپ کی تجویز ہےکہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کریں، عدالت نے یقین دہانی کرانےکا کہا تو حکومت نے جواب نہیں دیا تھا، حکومت نے آج پہلی بار مثبت بات کی ہے، ایک دن انتحابات کرانےکی درخواستوں پرسیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کردیتے ہیں، سیاسی جماعتوں کو کل کے لیے نوٹس جاری کر رہے ہیں، نگران حکومت 90 دن سے زیادہ برقرار رہنے پر بھی سوال اٹھتا ہے۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل فیصل چوہدری سے سوال کیا کہ کیا پی ٹی آئی مذاکرات چاہتی ہے؟ ملک و قوم میں تکلیف کے عالم کو دیکھا جائے، اگرتحریک انصاف نےکوئی کمیٹی بنائی ہے توبتایا جائے، سیاسی اتفاق رائے ہوا تو 14 مئی کا فیصلہ نافذ کرائیں گے، سیاسی عمل آگے نہ بڑھا تو الیکشن میں تصادم ہوسکتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے فیصل چوہدری سےکہا کہ اپنے موکل سے ہدایات لےکر عدالت کو آگاہ کریں۔
سپریم کورٹ نے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے حکم دیا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بتائےکہ جماعت اسلامی سمیت دیگرسیاسی جماعتوں کے نامزد قائدین پیش ہوں۔
عدالت نے کیس کی سماعت کل 11:30 بجے تک ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دے رکھا ہے، اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک کو الیکشن کمیشن کو فنڈز فراہم کرنے کا حکم دیا تھا تاہم قومی اسمبلی نے فنڈز کے اجرا کی قرارداد مسترد کردی۔