لاہور: وزیراعظم ہاؤس، صدر ہاؤس، سپریم کورٹ اور دیگر ادارے بجلی کا بل ادا نہیں کرتے جس کا بوجھ بھی عوام برداشت کرتے ہیں۔
سراج الحق نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ عوام ہر مہینے بجلی کا بل دیتے ہیں جو دراصل بل نہیں ایک سرکاری ڈاکہ ہے، حکومت نے اعلان کیا ہے بجلی کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگیا اور 75روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت کی جائے گی، آنے والے دنوں میں 100روپے فی یونٹ ہونے کا امکان ہے۔
سراج الحق نے بتایا کہ ہم نے ایک توانائی کانفرنس کروائی جس میں ماہرین کو بلایا گیا، انہوں نے بتایا نجی بجلی گھروں (آئی پی پیز) کے ساتھ معاہدے ٹھیک نہیں ہوئے اور حکومت ان ملکوں سے تیل لیتی ہے جو ڈالر پر پیمنٹ لیتے ہیں، جبکہ ایران نے کہا ہے کہ ہم سستی گیس اور سستا تیل دینے کو تیار ہیں اور اپنی پائپ لائن بھی بچھا دی لیکن پاکستانی حکومت کہتی ہے کہ ہم پر دباؤ ہے، افغانستان اور نیپال بھی تاجکستان سے بجلی برآمد کرتے ہیں لیکن پاکستان کے مقابلے میں ان کی بجلی کی قیمت پھر بھی کم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں آج بھی تربیلا اور منگلا ڈیم سے سستی ترین بجلی بنتی ہے، سولر انرجی سے بننے والی بجلی کی قیمت 16روپے فی یونٹ ہے لیکن اسے نیشنل گرڈ میں ڈال کر عوام سے 55روپے فی یونٹ وصول کئے جاتے ہیں، عوام بجلی کا بل دینا چاہتے ہیں لیکن جب حکومت خود ڈاکے ڈالے تو عوام کیا کرے۔
سراج الحق نے کہا کہ پاکستان میں بجلی کے جتنے منصوبے بنائے گئے اس میں عوام کا کوئی فائدہ نہیں، صرف ذاتی مفادات ہیں، حکومت نے آئی پی پیز سے معاہدے کئے اور کوئلے سے 88 پرائیویٹ کمپنیوں نے بجلی بنانی شروع کی جو مہنگی ہے، جبکہ پانی سے بننے والی بجلی کی قیمت کوئلے سے بجلی کی قیمت کے مقابلے میں 30فیصد کم ہے۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ 2014 میں پیپلز پارٹی نے مہنگی بجلی کے معاہدے کئے، بعد میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کی حکومتیں آئیں، تینوں سیاسی پارٹیوں نے بجلی بنانے والی پرائیویٹ کمپنیز کے حوالے سے کچھ نہیں کیا کیونکہ یہ کمپنیاں انکی ڈونرز ہیں، اتنی بجلی پرائیویٹ کمپنیوں نے بنائی نہیں جتنے پیسے ہم کپیسٹی چارجز کی مد میں انہیں ادا کر چکے ہیں۔
سراج الحق نے کہا کہ دوسرا لائن لاسسز کا مسئلہ ہے، گزشتہ سال پاکستانی عوام نے لائن لاسسز کی مد میں 1ہزار بلین ادا کئے ہیں اور 20سال میں یہ رقم 20ہزار ارب تک پہنچ جاتی ہے، یہ حکومت کی نااہلی ہے جس کا عوام پر بوجھ لادا گیا، پاکستان میں لیسکو، پیسکو، فیسکو سمیت ایسی 11 کمپنیاں ہیں جس کے سرکاری افسران کا خرچہ عوام اٹھاتے ہیں، عوام بجلی کے بل کی مد میں 5 دیگر سرکاری اداروں کا بھی خرچہ اٹھا رہے ہیں، جماعت اسلامی مطالبہ کرتی ہے ان تمام ڈسٹریبیوٹرز (تقسیم کار کمپنیوں) کو ختم کر کے ایک کمپنی بنائی جائے۔
امیر جماعت نے کہا کہ تیسرا بڑا مسئلہ بجلی چوری کا ہے، پاکستانی عوام نہیں بلکہ سرکاری ادارے اور افسران بجلی چوری کرتے ہیں، وزیراعظم ہاؤس، صدر ہاؤس، سپریم کورٹ اور دیگر ادارے بجلی کا بل ادا نہیں کرتے جس کا بوجھ بھی عوام برداشت کرتے ہیں۔
سراج الحق نے مزید کہا کہ آئی پی پیز کے معاہدے ختم کر دینے چاہئیں ان کمپنیز نے دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹا ہے، اگر ان معاہدوں کو ختم کرنے کے لیے انٹرنیشنل کورٹ بھی جانا پڑے تو جانا چاہیے، ہم نے بجلی کے بلوں کے حوالے سے کیس تیار کیا ہے اور ہم یہ معاملہ سپریم کورٹ لے کر جا رہے ہیں۔