پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی ) کے چیئرمین اور سابق وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ڈکٹیشن کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند کر دیں، ڈکٹیشن کا دروازہ بند ہو گیا تو جمہوریت چل سکتی ہے۔
پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی پی بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ آپس میں سیاسی اختلاف رکھا جاسکتا ہے لیکن ملک مشکل میں ہے اس لئے سیاسی اختلاف بھول کر مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔
چیئرمین پی پی کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے سب نے مل کر قربانیاں دیں، خیبر پختونخوا کے لوگ دہشتگردی کیخلاف صف اول کا کردار ادا کر رہے تھے، دنیا بھی کہہ رہی تھی پاکستان نے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے لیکن عوام ، پارلیمان سے پوچھے بغیر دہشتگرد تنظیموں سے بات چیت ہوئی اور سنگین دہشتگردی میں ملوث لوگوں کو جیلوں سے نکالا گیا۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشتگردی کرنے والے لوگ افغان جیلوں میں بند تھے، ہم نے ان دہشتگردوں کو روکنے کی بھی کوشش نہیں کی، ان دہشتگردوں کو قبائلی علاقوں میں رہنے کی دعوت دی گئی، جب دہشتگردوں کو آباد کرو گے توپھر امن ہوگا؟، ایک فیصلے نے پاکستان کو 10 سال پیچھے دھکیل دیا اور پاکستان میں دہشتگردی ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک فیصلے کی وجہ سے افغانستان کو پاکستان میں اسٹریٹجک ڈیتھ دلوایا اور پولیس ، فوجی سپاہی ، عوام شہید ہو رہے ہیں، بتایا جائے شہدا کے خون کا سودا کیوں ہوا ؟ کیسے ہوا ؟ کس سے ہوا؟۔
چیئرمین پی پی نے کہا کہ گزشتہ روز شہید ذوالفقار بھٹو کے کیس کی سماعت میں شامل تھا، موقع دینے پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اور تمام جج صاحبان کا شکر گزار ہوں، ملکی نظام اور جمہوریت کی بہتری چاہتے ہیں، جوڈیشل ریفرنس سے قائد عوام کو انصاف دلانا چاہتے ہیں، ذوالفقار بھٹو کے قتل میں ملوث لوگوں کو بے نقاب کیا جائے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں تاریخ کو درست کیا جائے، چاہتے ہیں قائد عوام کے قتل میں ملوث لوگوں کو بے نقاب کیا جائے، جمہوری نظام اور عدلیہ کیلئے پاکستان کو بحران سے نکالنے کا موقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کوئی ایسا جج یا وکیل نہیں جو اس کیس کی مثال دے، کیس میں نظر آتا ہے وزیر اعظم کیخلاف مرضی کا فیصلہ کرایا گیا، قائد عوام آئین کے بانی ، ایٹم بم دلوانے ، مسلم امہ کو اکٹھے کرنے والے تھے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا عدالت کسی صورت میں قتل کرسکتی ہے؟، قتل تو قتل ہے ، انصاف مانگنا ہر کسی کا حق ہے، جب کسی جج نے فیصلہ کیا ڈیم بنانا ہے تو سوال کرنے والا کون تھا؟، راستہ بنایا گیا آئینی و قانونی کہ ڈیم بناؤ، کیا کسی جج صاحب کا حق ہے، غریبوں کے گھر تباہ کرنے کے فیصلے ہو رہے تھے تو قانون کہاں تھا؟۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ( ن ) اور پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے لوگوں کو اندازہ نہیں تھا، جو لوگ پیپلز پارٹی کا مذاق اڑاتے تھے اب ان لوگوں کو اندازہ ہو رہا ہوگا، جتنے لوگ میاں صاحب ( نواز شریف ) کے ساتھ ہیں اتنے ہی ہمارے ساتھ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک کا وزیرخارجہ رہا ہوں، اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کتنی پوٹینشل موجود ہے، تقسیم ، نفرت اور انا کی سیاست چھوڑ دیں ، کھیلوں گا نہ کھیلنے دوں گا کی سیاست ہمیشہ کیلئے دفن کردیں، شہید ذوالفقار بھٹو نے وعدہ کیا تھا ملک مضبوط ملک بنے گا، ہمارے پاس اپنے وسائل ہیں، ہم دنیا کے ساتھ ملکر چلنا چاہتے ہیں تو ہمارا اپنا فیصلہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہید بینظیر بھٹو جلا وطن تھیں تو میں دبئی میں رہتا تھا، دبئی کو اگر کسی نے بنایا ہے تو پختون بھائیوں کی محنت نے بنایا، ہم دوسرے ممالک بنا سکتے ہیں تو اپنا کیوں نہیں بنا سکتے، کہا جاتا ہے وسائل نہیں ہیں ، ہم وسائل نکال سکتے ہیں، مہنگائی ، بیروزگاری ، غربت سب سے بڑا مسئلہ ہے، اس کا بھی حل نکال سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنی ہے تو مقابلہ نہیں کرسکتے، ذاتی مفاد کا نہیں سوچیں گے تو عام آدمی کی تنخواہ دگنی کرسکتے ہیں، کروڑوں نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں کا وعدہ تو سنتے آ رہے ہیں، شاید آپ سوچ رہے ہوں گے میں بھی ایسے ہی وعدے کررہا ہوں لیکن تاریخ گواہ ہے ہم جو کہتے ہیں وہ کر کے دکھاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ محنت کا صلہ دلوائیں تب ہی ترقی ہوسکتی ہے، مزدور کو محنت کا صلہ ملنے تک ملک ترقی نہیں کرے گا، آج ہمارا پبلک سیکٹر میں انویسٹمنٹ 2 فیصد ہے، ملک میں سرمایہ کاری ہی نہیں کریں گے تو ترقی کیسے ہو گی