اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کا عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت پر سپریم جوڈیشل کونسل کو خط
اسلام آباد: اگرعدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہو رہی تھی تو عدلیہ کی آزادی کو محدود کرنے والے کون تھے؟ ان کی معاونت کس نے کی؟ سب کو جوابدہ کیا جائے
اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر جج جسٹس محسن اختر کیانی سمیت 6 ججز نے عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور دباؤ ڈال کر اثرانداز ہونے پر سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کے 2018 میں لگائے الزامات کی تحقیقات کرانے کی مکمل حمایت بھی کردی، خط جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔
خط کے مطابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو انٹیلی جنس ادارے کی مداخلت کا بتانے پر 11 اکتوبر 2018 کوعہدے سے برطرف کیا گیا، ججز نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ نے 22 مارچ کے فیصلے میں جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کو غلط قرار دیا اور انھیں رٹائرڈ جج کہا اس لیے جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ان کے عائد کردہ الزامات کی تحقیقات ہونی چاہئیں،ججز نے کہا ہے کہ ہم جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کے تحقیقات کرانے کے موقف کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔
خط میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ اگر عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہو رہی تھی تو عدلیہ کی آزادی کو محدود کرنے والے کون تھے، ان کی معاونت کس نے کی، سب کو جوابدہ بنایا جائے تاکہ یہ عمل دہرایا نہ جا سکے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا کہنا ہے کہ ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں کوئی رہنمائی نہیں کہ ایسی صورتحال کو کیسے رپورٹ کریں۔
ججز نے اپنے خط میں مزید لکھا کہ تحقیقات کا سکوپ وسیع ہونا چاہئے کہ کہیں اب بھی تو اس طرح کی مداخلت جاری نہیں، کہیں کیسز کی سماعت کیلیے مارکنگ اور بینچز کی تشکیل میں اب بھی تو مداخلت جاری نہیں، انکوائری ہونی چاہئے کہ کیا سیاسی کیسز میں عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونا ریاستی پالیسی تو نہیں،کہیں انٹیلی جنس آپریٹوز کے ذریعے ججز کو دھمکا کر اس پالیسی کا نفاذ تو نہیں کیا جا رہا۔
ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو اپنے خط میں لکھا کہ ٹیریان وائٹ کیس کے قابل سماعت ہونے کے معاملے پر بنچ میں شامل ججز کا اختلاف سامنے آیا،پریذائیڈنگ جج نے اپنی رائے کا ڈرافٹ بھجوایا جس سے دیگر دو ججز نے اختلاف کیا، الزام عائد کیا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے آپریٹوز نے پٹیشن ناقابل سماعت قرار دینے والے ججز پر دوستوں، رشتہ داروں کے ذریعے دباؤ ڈالا جس کے بعد ایک جج شدید ذہنی دباؤ کے باعث ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوکر ہسپتال داخل ہوئے۔
ہائیکورٹ کے چھ ججز نے خط میں لکھا کہ اس کے باوجود آئی ایس آئی کے آپریٹوز کی مداخلت جاری رہی، ججز نے اپنے خط میں الزام عائد کیا ہے کہ مئی 2023ء میں ہائیکورٹ کے ایک جج کے برادر نسبتی کو مسلح افراد نے اغوا کیا اور 24 گھنٹے بعد چھوڑا، برادر نسبتی کو حراست کے دوران الیکٹرک شاک لگائے گئے اور وڈیو بیان ریکارڈ کرنے پر مجبور کیا گیا، ایک ہائیکورٹ جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے استعفی دینے پر دباؤ ڈالا گیا۔
عدالت عالیہ کے چھ ججز نے خط میں بتایا کہ 10 مئی 2023 کو چیف جسٹس کو مراسلہ لکھا کہ آئی ایس آئی آپریٹوز کی مداخلت پر توہین عدالت کی کارروائی کی جائے، ججز کا کہنا ہے کہ ایک جج سرکاری گھر میں شفٹ ہوئے تو ان کے ڈرائنگ روم اور ماسٹر بیڈ روم میں کیمرے نصب تھے، کیمرے کے ساتھ سم کارڈ بھی موجود تھا جو آڈیو وڈیو ریکارڈنگ کسی جگہ پہنچا رہا تھا، جج اور اس کی فیملی کی پرائیویٹ وڈیو اور یو ایس بی دریافت ہوئیں۔
اداروں کی مداخلت کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کی جانب سے لکھے گئے خط کے بعد اب سب کی نظریں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل پر ہیں کہ اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا، خط کی کاپی سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان کو بھی ارسال کی گئی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد ابراہیم خان اس کے ارکان ہیں۔
سندھ ہائیکورٹ بار کے سابق صدر صلاح الدین احمد کا کہنا ہے کہ مذکورہ خط پر سپریم کورٹ کی جانب سے فوری از خود نوٹس کی ضرورت ہے،شوکت صدیقی کے کیس میں، میں نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ وہ انٹیلی جنس ایجنسیوں پر الزامات کی تحقیقات کرے، تاہم یہ اب بہت ضروری ہو گیا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی توثیق کے بعد اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین ججوں کی کمیٹی ازخود نوٹس کے دائرہ اختیار پر فیصلہ کرے گی۔
سینئر وکلا حیران ہیں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت پر اپنے ساتھی ججوں کے خط پر سخت ایکشن کیوں نہ لیا، سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6ججوں نے چیف جسٹس فائز عیسی کو امتحان میں ڈال دیا،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بظاہر اس معاملے میں ناکام رہے ہیں۔