Featuredبلاگ

14 مئی سرائیل کے وجود کا ناجائز دن

انسانی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن تھا جب مئی 14، 1948 کو اسرائیل کا منحوس جنم ہوا

اسرائیل کی ناجائز حکومت پر بات کی جائے تب بھی آپ دیکھیں یہودی یہ سوچ رکھتے ہیں کہ ہم ہزاروں سال پہلے یہاں آباد تھے تو ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم فلسطین پر حکومت کریں

 یہودی قوم نے اول دن سے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی توہین کی، سینکڑوں انبیاء (ع) کو قتل کیا، چالاکی اور مکاری دکھاتے رہے اور ہمیشہ فسادات کا ساتھ دیا۔

رپوٹ : فاطمہ زیدی

انیسویں صدی میں یورپ میں مقیم یہودیوں کے خلاف یہودیوں کی مختلف جنگوں اور مختلف حکومتوں کے خلاف سازشوں کی وجہ تعصب کی فضا ابھری۔

اس دوران یہودیوں کو جو نجات کا راستہ نظر آیا، وہ ایک الگ ریاست کا قیام تھا، اسی سلسلہ میں یہودی عالم زوی کالسچر نے اپنی کتاب دریشت صیہون لکھی اور ایک تنظیم محبان صیہون کی بنیاد رکھی، اس تنظیم کے نتیجے میں 1882ء میں فلسطین میں پہلی یہودی بستی قائم ہوئی۔

ہالینڈ کے ایک وکیل اور صحافی تھیوڈور ہرزل نے یہودی ریاست نامی کتاب 1896ء میں لکھی اور اگلے سال ہی 29 اور 30 اگست کو سوئٹزر لینڈ میں تین سو نامور، سرمایہ کار اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے یہودیوں کو جمع کیا اور بحث و تمحیص کے بعد فلسطین پر ناجائز قبضے پر اتفاق ہوا۔

ہرزل نے سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ عبد الحمید کو اسی سلسلہ میں تحائف دیئے، البتہ سلطان راضی نہ ہوئے، ہرزل نے ایک کمپنی بنائی، جو فلسطین میں مقیم یہودیوں کی مالی مدد کرتی۔

1914ء میں جنگ عظیم اول شروع ہوئی اور جنگ کو بہانہ بنا کر یہودیوں نے فلسطین میں ہجرت شروع کر دی، 1916ء میں سلطنت عثمانیہ فرانس اور برطانیہ کے حصے میں تقسیم ہوگئی اور فلسطین برطانیہ کے حصے میں آیا۔ 2 نومبر 1917ء کو برطانیہ نے ایک یہودی رچرڈ کو خط کے ذریعے اسرائیل کی ریاست کی آمادگی ظاہر کی اور اس کو اس کام پر مامور کیا۔

اس خط کی امریکہ نے بھی حمایت کی یہودیوں نے برطانوی فوجیوں کے ذریعے فلسطینیوں سے املاک جائز اور ناجائز طریقے سے خریدنا شروع کیں، اٹلی میں 1920ء میں ایک قرارداد اسرائیل کے حق میں پیش کی گئی، جس کو اقوام متحدہ نے قبول کرلیا، 1920ء سے لے کر 15 مئی 1948ء اسرائیل کے قیام تک یورپ اور فلسطین کے درمیان بہت سے اتار چڑھاؤ آئے۔

اس دوران 1939ء میں فرانس اور جرمنی کے درمیان جنگ عظیم دوئم ہوئی، اس دوران جرمنی جرنیل ہٹلر نے یہودیوں کو ان کی سازشوں کی وجہ سے قتل کرنا شروع کیا، البتہ جتنی تعداد مقتولین کی بتائی جاتی ہے، وہ افواہوں کا بازار تھا۔

اس دوران مزید یہودیوں نے اسرائیل کی طرف ہجرت کی 14 مئی 1948ء کو برطانیہ نے فلسطین سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا اور اسی دن اقوام متحد میں فلسطین میں ایک الگ ریاست کے سلسلے میں ووٹ ڈالا گیا، سب سے پہلے برطانیہ، اس کے بعد امریکہ اور پھر سویت یونین نے بھی اسرائیل کو قبول کر لیا اور اس طرح ایک ناجائز حکومت وجود میں آئی اور اس طرح ایک ناجائز حکومت فلسطین پر قابض ہوئی۔

ممکن ہے کہ قارئین یہودیوں کی تاریخ کو پڑھ کر ان کو مظلوم سمجھ لیں کہ آخر یہ قوم صدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں تھی، تو ان کو حق حاصل ہے کہ اپنی ایک الگ حکومت حاصل کرسکتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

یہودی قوم نے اول دن سے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی توہین کی، سینکڑوں انبیاء (ع) کو قتل کیا، حضرت یحییٰ (ع) کو قتل کیا، حضرت عیسیٰ (ع) کو قتل کرنے کی سازش کی، آپس میں سازشیں کیں اور اپنی حکومتوں کو نقصان پہنچایا اور جس حکومت میں بھی رہے، چالاکی اور مکاری دکھاتے رہے اور ہمیشہ فسادات کا ساتھ دیا۔

یہودی یورپ میں رہے تو یورپ میں ہمیشہ فسادات کئے اور اگر عرب میں آئے تو رسول خدا (ص) کو شہید کرنے کی کوشش کی، ہمیشہ مسلمانوں کی حکومت میں مختلف عہدوں پر رہے، لیکن انہیں نقصان پہنچایا اور ان کے خلاف سازشیں کیں۔

اگر اسرائیل کی ناجائز حکومت پر بات کی جائے تب بھی آپ دیکھیں یہودی یہ سوچ رکھتے ہیں کہ ہم ہزاروں سال پہلے یہاں آباد تھے تو ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم فلسطین پر حکومت کریں، حالانکہ مسلمانوں نے فلسطین کو جب فتح کیا تب یہ قوم وہاں غلامی میں تھی اور پھر یہاں مسلمانوں کی آزاد حکومت بنی اور یہ حکومت یقیناً یہودیوں سے چھین کر قائم نہیں کی گئی۔

ایک سوال جو اس متن میں کہ فلسطینیوں نے وہاں املاک کو بیچا اور یہودیوں کو آباد کیا تو واضح سی بات ہے کہ فلسطینی قوم یہودیوں کی اس سازش سے کہاں واقف ہوگی اور اس کے علاوہ وہاں برطانوی فوج کے ذریعے املاک خریدی گئیں اور وہاں پہلے سے مقیم یہودیوں نے بھی ایک منصوبے کے تحت وہاں کی املاک کو خریدنا شروع کیا تاکہ بعد میں یہودیوں کو آباد کیا جاسکے۔

ایک قابل غور نقطہ یہ بھی ہے کہ یہودیوں کو فلسطین میں پہلی جنگ عظیم میں عارضی پناہ دی گئی اور دنیا کے کسی قانون کے تحت بھی اگر آپ کہیں عارضی پناہ رکھتے ہیں تو آپ کو پناہ دینے والا ملک کسی بھی وقت آپ کو اپنے ملک سے نکالنے کا حق رکھتا ہے، اس کے علاوہ قابل غور نقطہ یہ بھی ہے کہ جب برطانیہ نے اپنا تسلط ختم کیا تو فلسطینی قوم آزاد ہوگئی تو ان کو حق حاصل تھا کہ ان کی ہی ریاست میں ایک الگ ریاست بنانے سے پہلے فلسطینی قوم کے جذبات کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا، لیکن فلسطینیوں سے اس پر رائے نہ لی گئی، جس سے یہودیوں اور عیسائیوں کی اسلام دشمنی واضح ہے۔

اس کے علاوہ اسرائیل کا وجود اس لئے بھی امریکہ اور برطانیہ کے لئے ضروری تھا کہ وہ اب مشرق وسطی میں ہر طرح سے مسلمانوں پر نظر رکھنا چاہتے تھے، تاکہ کوئی بھی ایسی تحریک وجود میں نہ آجائے جو مسلمانوں کو متحد کرے اور ایک مضبوط اسلامی بلاک بنے اور اسلامی حکومت قائم ہوسکے۔۔۔

ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب اس مقدس سرزمین سے اسرائیل کا وجود ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔

نوٹ: یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

 

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close