Featuredاسلام آبادتجارت

تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ بڑھانے کا فیصلہ مؤخر

اسلام آباد: پاکستان کا تنخواہ دار طبقہ بینک ڈیپازٹرز، کنڑیکٹرز اور درآمدی ٹیکسوں کے بعد چوتھا سب سے ٹیکس دینے والا طبقہ ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے تنخواہ دار افراد کے لیے انکم ٹیکس کی شرح میں اضافے کے لیے بجٹ تجویز کی منظوری موخر کر دی جس سے آئی ایم ایف کی عائد کردہ متنازع شرط رکنے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ نئے بجٹ کیلیے ٹیکس تجاویز کے متعلق گزشتہ اجلاس میں وزیراعظم نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ بڑھانے کی شرط کی توثیق نہیں کی بلکہ وزارت خزانہ کو آئی ایم ایف کے پاس واپس جانے اور ان سے تجویز واپس لینے کی درخواست کرنے کی ہدایت کر دی۔

پاکستان کا تنخواہ دار طبقہ بینک ڈیپازٹرز، کنڑیکٹرز اور درآمدی ٹیکسوں کے بعد چوتھا سب سے ٹیکس دینے والا طبقہ ہے۔ مہنگائی کے مسلسل ڈبل ڈیجیٹ میں ہونے کے باعث ان کی قوت خرید تیزی سے سکڑتی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود آئی ایم ایف تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار کاروباری افراد سے آئندہ مالی سال میں مزید 600 ارب روپے سالانہ وصول کرنا چاہتا ہے۔
رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران تنخواہ دار افراد نے 216 ارب روپے ٹیکس ادا کیا۔ حکومت کا آئندہ مالی سال کیلیے ٹیکس وصولی کا ہدف 12.9 ٹریلین روپے ہے جو رواں مالی سال کے ہدف سے 40 فیصد یا 3.6 ٹریلین روپے زیادہ ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے افراد کے لیے ٹیکس کی شرح کو معقول بنانے کیلیے تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار کی تفریق کو ختم کرنے اور سلیب کی تعداد کو چار سے کم کرنے کی سفارش کی ہے۔ اس نے زیادہ شرح والے سلیبس کے لیے آمدنی کی حد کم کرنے کو بھی کہا ہے۔

اگر آئی ایم ایف کی شرائط کو تسلیم کر لیا جائے اور حکومت تنخواہ دار افراد کی سب سے زیادہ قابل ٹیکس آمدنی کی حد کو کم کر کے تنخواہ دار اور کاروباری افراد پر ایک ہی آمدنی کی حد پر ٹیکس لگانا شروع کر دے تو 35 فیصد کی سب سے زیادہ ٹیکس کی شرح 3لاکھ 33 لاکھ روپے سے زائد کی ماہانہ آمدن پر لاگو ہوگی۔

اس وقت کاروباری افراد سے 3لاکھ 33 لاکھ روپے ماہانہ آمدنی پر 35 فیصد کی شرح پر ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جبکہ تنخواہ دار افراد کی سب سے زیادہ ٹیکس کی شرح 5 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ سے زائد پر شروع ہوتی ہے۔ تنخواہ دار افراد کی پانچ ٹیکس بریکٹس ہیں جن کی شرح 2.5 فیصد، 12.5فیصد، 22.5 فیصد، 27.5 فیصد اور 35فیصد ہے۔ سب سے زیادہ ٹیکس بریکٹ وہ ہے جس کی سالانہ آمدنی 60 لاکھ روپے سے شروع ہوتی ہے۔

آئی ایم ایف نے انکم ٹیکس چھوٹ کی حد میں مزید نرمی کرنے کی بجائے اسے 50 ہزار روپے کی موجودہ شرح پر برقرار رکھنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اس سے 51 ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے ماہانہ تک کمانے والے نچلے، درمیانی آمدنی والے طبقوں پر منفی اثر پڑے گا جن کی قوت خرید میں مہنگائی کی وجہ سے نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق ٹیکس چھوٹ کی6 لاکھ روپے سالانہ شرح تقریباً 2,160 ڈالر کے برابر ہے جو علاقائی اوسط کے قریب ہے۔ اس کے علاوہ سیلز ٹیکس18 فیصد کرنے سے شہریوں کو مہنگائی کی ایک اور لہر برداشت کرنا ہوگی۔ آئی ایم ایف نے تمام انکم ٹیکس کریڈٹس اور الاؤنسز خاص طور پر اساتذہ اور محققین کو دستیاب کریڈٹس اور الائونس واپس لینے کو کہا ہے۔ یہ تعلیمی اخراجات الاؤنس اور ورکرز ویلفیئر فنڈ سے متعلقہ ٹیکس کریڈٹ کو ختم کرنا چاہتا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے پنشنرز پر ٹیکس لگانے کا بھی ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ سرکاری سطح پر پنشن پر ٹیکس لگانے کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن پنشن کی حد پر ابھی تک اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم پنشنرز پر ٹیکس لگانے کے حق میں نہیں تھے۔
آئی ایم ایف مخصوص شعبوں میں ملازمین کو مراعات دینے کے لیے ترجیحی سلوک اور حصص میں سرمایہ کاری کے لیے ٹیکس کریڈٹ بھی ختم کرنا چاہتا ہے جبکہ مارگیج کی ادائیگیوں کے لیے ٹیکس کی شرح میں کمی کا فائدہ واپس لینے کی بھی سفارش کی ہے۔

آئی ایم ایف نے ٹیکس قوانین کے نفاذ کو بہتر بنانے کے لیے سزا میں اضافہ کرنے کو بھی کہا ہے کیونکہ موجودہ سزائیں لوگوں کو ان قوانین کی خلاف ورزی سے روکنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ اس نے سفارش کی ہے کہ ٹیکس قوانین کو نافذ کرنے اور ٹیکس ادائیگی کو فروغ دینے کے لیے سزائوں کا سخت نظام بہت اہم ہے۔

آئی ایم ایف نے صنعت کاروں کے لیے ٹیکس مراعات دینے کے ایف بی آر کے صوابدیدی اختیار کو منسوخ کرنے کے علاوہ ٹیکس مراعات دینے کے لیے کابینہ کے صوابدیدی اختیار کو ختم کرنے کے لیے بھی کہا ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close