وزارت توانائی نے اعلان کردی نئی سولرائزیشن پالیسی پر کام شروع کر دیا ہے اور اس حوالے اس حوالے سے 6 فارمولے زیرِغور ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق نیٹ میٹرنگ کے مسئلے پر وفاقی حکومت کو پریشان کن صورتِ حال کا سامنا ہے کیونکہ اس حوالے سے بیورو کریٹس اور سیاست دانوں کے درمیان جنگ کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ بیوروکریسی کا موقف یہ ہے کہ شمسی توانائی کے فروغ سے ملک میں توانائی کا شعبہ شدید بحران کا شکار ہوگا۔
بیورو کریسی نے بظاہر توانائی کے شعبے کو بچانے کے لیے، تجویز کیا ہے کہ شمسی توانائی کا نظام مرحلہ وار پھیلانے اور بائی بیک میکینزم کے لیے آسٹریلین ماڈل اپنایا جائے۔ آسٹریلیا میں سولر پینلز سے زیادہ بجلی بنانے والوں پر حکومت جرمانے کر رہی ہے۔
ایک تجویز یہ بھی ہے کہ بجلی کے بل یونٹس کے بجائے نیٹ میٹرنگ کے تناظر میں طے کیے جائیں۔ شمسی توانائی کے نرخ حکومت حتمی طور پر متعین کرے گی۔
واضح رہے کہ پاور ڈویژن جس نے پچھلے ماہ نیٹ میٹرنگ کے ریٹ کم کرنے تجویز دی تھی اور اس حوالے سے 6 نکات پر مبنی سمری پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یہ نکات ایک طرح سے 6 مختلف فارمولوں پر مبنی ہیں۔ پہلا فارمولہ یہ ہے کہ نیٹ میٹرنگ کو گراس میٹرنگ سے تبدیل کردیا جائے۔ یعنی سولر سسٹم لگانے والوں کے لیے دو میٹر ہوں گے، ایک سے وہ اپنی تمام بجلی گرڈ کو بھیجیں گے اور دوسرے سے وہ عام صارف کی طرح بجلی خریدیں گے۔
دوسرا فارمولہ یہ ہے کہ سولر کیلئے ایک الگ ٹیرف کیٹگری بنا دی جائے۔ تیسرا یہ ہے کہ سولر سسٹم لگانے والوں پر فکسڈ چارجز عائد کردیئے جائیں۔ چوتھا یہ ہے کہ نیٹ میٹرنگ کے نرخوں پر نظر ثانی کی جائے۔ پانچواں یہ ہے کہ نیٹ میٹرنگ کی ریگولیشنز پر نظر ثانی کی جائے۔
چھٹا یہ ہے کہ نیٹ میٹرنگ کے ریٹ مقرر کرنے کا طریقہ کار ایک ڈائنامک فارمولے کے تحت رکھا جائے تاکہ یہ نرخ مختلف عوامل کی بنا پر کم یا زیادہ ہو سکیں گے۔ پاور ڈویژن ان تمام نکات یا فارمولوں پر مبنی جو رپورٹ پیش کرے گا، اس کی بنیاد پر حکومت اگلا قدم اٹھا سکتی ہے۔
پاور ڈویژن کا کہنا ہے کہ جس رفترا سے سولر سسٹم لگ رہے ہیں وہ اتنی زیادہ ہے کہ گویا مارکیٹ میں ایک نیا بجلی پیدا کرنیوالا کارخانہ لگ گیا ہے لیکن بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کے پاس ایسا نظام نہیں ہے جو اس اضافی بجلی کا بوجھ اٹھا سکے۔