سوات میں مبینہ توہین مذہب واقعے میں ملوث 7 ملزمان گرفتار
پشاور: سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز اور سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے ملزمان کو گرفتار کیا جا رہا ہے
سوات میں مبینہ توہین مذہب واقعے میں ملوث 7 ملزمان کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔
پولیس کے مطابق ایف آئی آر میں نامزد ایک ملزم کو بھی حراست میں لیا گیا جبکہ مقدمے میں 2ہزار افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز اور سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے ملزمان کو گرفتار کیا جا رہا ہے جبکہ ابتدائی طور پر نامزد ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
واضح رہے کہ کچھ روز قبل سوات کے علاقے مدین میں مبینہ توہین مذہب واقعے میں شہری کو تشدد اور زندہ جلا دیا گیا تھا جس پر تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی۔
خیبر پختونخوا پولیس نے مدین واقعے کی تحقیقات کے لیے 10 رکنی جے آئی ٹی جے آئی ٹی تشکیل دی ہے جس میں سی ٹی ڈی، اسپیشل برانچ اور سینیئر پولیس افسران کو شامل کیا گیا ہے جبکہ اس کی مانیٹرنگ ڈی آئی جی مالاکنڈ کریں گے۔
وزارت داخلے کے ماتحت وفاقی ادارے کی ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پولیس نے ملزم کو ہوٹل سے تھانے منتقل کر کے غلطی کی جبکہ ایس ایچ او اعلیٰ حکام سے رہنمائی نہ لے سکے اور نہ ہی مقتول کو کسی محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔
رپورٹ میں پولیس کی غفلت اور اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ ملزم نے دوران حراست توہین مذہب سے انکار کیا۔
رپورٹ کے مطابق ہوٹل انتظامیہ نے مقتول سلیمان کے کمرے کا دروازہ کھلوایا تو اُس نے گیٹ کھولتے ہی توہین قرآن سے انکار کیا تھا۔ تھانے منتقلی کے بعد ہجوم کے پہنچنے پر پولیس اسٹیشن میں اعلیٰ پولیس افسران یا سیاسی رہنماؤں کی غیرموجودگی بھی نقصان کا باعث بنی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پولیس کی حراست میں ملزم نے توہین مذہب سے انکار کیا جبکہ پولیس نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملزم کو بچانے اور نقصان پر قابو پانے کی کوشش کی، اس دوران مظاہرین سے تصادم ہوا جس میں 11 افراد اور پانچ پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ مظاہرین نے تھانے میں پولیس وین، دو موٹر سائیکل اور 5 گاڑیاں بھی جلائیں۔