سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے کیس کی کارروائی مکمل نہ ہو سکی، سماعت پیر تک ملتوی
سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے کیس کی کارروائی میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فُل کورٹ نے کیس کی سماعت کی،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی گئی تو اب کوئی حل نہیں،مخصوص نشستوں کے کیس کی کارروائی مکمل نہ ہوسکی، سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل سکندر بشیر نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کامیاب آزاد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی پیپر بکس تیار ہو رہی ہیں، میرے دلائل کے دوران وہ پیپر بکس بھی آجائیں گی، میں نے آزاد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کل ہی پہلی بار دیکھے ہیں،سنی اتحاد کونسل میں شامل 81 آزاد ارکان کے کاغذات نامزدگی منگوائے تھے،تمام ریکارڈ ضلعی سطح پر ہوتا ہے مکمل ریکارڈ نہیں ملا لیکن اس کی سمری موجود ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن کی گفتگو پر جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ تحریک انصاف کی ترجیحی فہرست بھی فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، سکندر بشیر نے جواب میں کہا کہ میں نے الیکشن کمیشن سے کہا ہے پی ٹی آئی کی ترجیحی فہرست بھی مل جائےگی،سکندر بشیر نے صاحبزادہ حامد رضا کے کاغذات نامزدگی پڑھ کر سنا دیئے، جس پر صاحبزادہ حامد رضا نے کہا وہ سنی اتحاد کونسل سے ہیں مگر پی ٹی آئی کے اتحادی ہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ حامد رضا نے آزاد امیدواروں والے انتخابی نشان کی درخواست کی تھی،جواب میں جسٹس جمال مندوخیل نے حامد رضا نے تو یہ لکھا ہی نہیں کہ میں آزاد ہونا چاہتا ہوں،حامد رضا نے کہا اگر عدالت سے بیٹ نہ ملا تو ہمیں شٹل کاک دے دیں،اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ چاہتے تھے میں آزاد ہو جاؤں۔
جسٹس میاں محمد علی مظہر نےسکندر بشیروکیل الیکشن کمیشن سے سوال کیا کہ کیا حامد رضا نے پی ٹی آئی نظریاتی کا سرٹیفکیٹ دیا؟ جواب میں وکیل نے کہا کہ نہیں حامد رضا نے وہ سرٹیفکیٹ نہیں دیا، صاحبزادہ حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے تعلق اور پی ٹی آئی سے اتحاد ظاہر کیا،حامد رضا نے شٹل کاک کا انتخابی نشان مانگا تھا جو کسی اور کو الاٹ ہوچکا تھا، صاحبزادہ حامد رضا بطور آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ حامد رضا کے خط میں کہیں نہیں لکھا کہ وہ اپنا پارٹی سرٹیفکیٹ واپس لینا چاہتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے وکیل الیکشن کمیشن سے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن نے حامد رضا کو انتخابی نشان سیکشن67 تین کے تحت دیا؟ ہمیں بتائیں الیکشن کمیشن کی اپنی کیا پوزیشن ہے؟ ساتھ یہ بھی بتائیں باقی 81 امیدواروں کو نشان کیسے الاٹ ہوئے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل سکندر بشیر مہمند سے استفار کیا کہ حامد رضا نے ٹکٹ کس جماعت کا جمع کرایا تھا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب میں کہا کہ ٹکٹ تحریک انصاف کا جمع کرایا گیا تھا،حامد رضا نے بیان حلفی دیا کہ وہ پی ٹی آئی نظریاتی کے امیدوار ہیں، وکیل کے جواب پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بیان حلفی کا معاملہ الگ ہے جمع کرایا گیا ٹکٹ پی ٹی آئی کا تھا، سکندر بشیر مہمند نے جواب دیا کہ سنی اتحاد میں شامل ہونے والوں کی سب سے آخری درخواستوں والا مؤقف ہی منظور کیا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفار کیا کہ کاغذات نامزدگی واپس لینے کی مدت 12 جنوری کو ختم ہو گئی تھی، وہ تاریخ گزرنے کے بعد کوئی امیدوار کسی پارٹی سے وابستگی بدل سکتا ہے؟
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میرے سوال سے کوئی ناراض نہ ہو ایک بات پوچھوں گا، کوئی کسی سے شادی کرنا چاہے تو یہ اس کی خواہش ہے، اس شادی کیلئے مگر لڑکی کا رضا مند ہونا بھی تو لازم ہے، حامد رضا کے فارم میں جس جماعت سے وابستگی دکھائی گئی اس جماعت کا سرٹیفکیٹ نہیں لگایا، یہ تضاد الیکشن کمیشن نے تو نہیں انہوں نے خود پیدا کیا،ایسے تضاد کی صورت میں کیا کاغذات مستردہوں گے؟ اس سارے معاملے کی قانونی وضاحت کیا ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا کاغذات نامزدگی واپسی کی تاریخ کے بعد امیدوار پارٹی تبدیل کر سکتا ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہانتخابی نشان کی الاٹمنٹ تک پارٹی ٹکٹ تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے وکیل الیکشن کمیشن سے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کی جانب سے جمع کرائے گئے فارم اے کا جائزہ کیوں نہیں لیا؟ الیکشن کمیشن نے صرف آزاد امیدوار والی آخری درخواست پر ہی عمل کیوں نہیں کیا؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مختلف شہروں کے ریٹرننگ افسران ہوتے ہیں، ہر ریٹرننگ افسر اپنے طریقے سے کام کرےگا ناں؟ نشان چھوڑیں، ہمیں امیدوار کی سیاسی وابستگی کے بارے میں بتائیں، قاضی فائز عیسیٰ کے سوال کے جواب میں وکیل سکندربشیر نے کہا کہ امیدوار کی ڈیکلریشن اور پارٹی کے ساتھ وابستگی ظاہر ہونا ضروری ہے،اگر ڈیکلریشن، سیاسی وابستگی میچ نہ ہو تو آزادامیدوار ہوتاہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال پوچھا کہ کیا ان 81 امیدواروں میں کوئی ایک ہے جس نے جماعت سے وابستگی اور سرٹیفکیٹ بھی دیا؟ کیا ایسے ہیں جنہوں نے وہ کاغذات واپس نہیں لئے مگر پھر بھی اسے آزاد ڈیکلیئر کردیا ہو؟ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب میں کہا کہ 81 لوگ ہیں تو ان کا مختلف مختلف حساب ہے، چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن سے پوچھا کہ آپ اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں یا نہیں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل الیکشن کمیشن سے کہا کہ آپ کا جواب جو چارٹ آپ نے جمع کرایا اس میں موجود ہے،جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ چارٹ کے مطابق 81 میں سے 35 نے وابستگی کو خالی رکھا، کیا یہ ریکارڈ نہیں دکھاتا کہ پی ٹی آئی امیدواروں کا رویہ غیر سنجیدہ ہے۔
جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ سیریل 12 اور 20 والے امیدواروں نے وابستگی اور ڈیکلریشن دونوں پی ٹی آئی کےدیئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ جب یہ دونوں چیزیں موجود تھیں تو امیدوار کو پی ٹی آئی کا کیوں نہ سمجھا گیا؟ الیکشن کمیشن نے اس کے بعد انتخابی نشان سے کنفیوز کیوں کیا؟ جن امیدواروں نے پارٹی کا سرٹیفکیٹ بھی دیا انہیں اس جماعت کا تصور کیوں نہ کیا گیا؟ آپ اس معاملے میں انتخابی نشان کہاں سے لے آئے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سکندر صاحب آپ سیریل 22 والے امیدوار کو بھی دیکھیں، جس امیدوار نے وابستگی برقرار رکھی اسے آزاد کیسے ڈیکلیئر کیا؟ جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا جواب مجھے کلک نہیں کر رہا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ الیکشن کمیشن کنفیوژن پھیلانے میں شامل تھا، جب الیکشن کمیشن نے خود کنفیوژن پھیلائی تو امیدوار سے کیا توقع رکھتا تھا؟ الیکشن کمیشن 13 جنوری کو امیدواروں سے سرٹیفکیٹ کی کیسے توقع رکھتا تھا؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کاغذات نامزدگی جمع ہونے کے دن ہی کہا گیا آپ کو انتخابی نشان نہیں ملے گا، آخری دن 13 جنوری تھا جب سپریم کورٹ آپ کے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے، سپریم کورٹ نے مگر یہ نہیں کہا کہ پی ٹی آئی جماعت الیکشن سے ختم ہو گئی، آپ ایک امیدوار کی بات نہیں کر رہے آپ ایک قومی سطح کی جماعت کی بات کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ الیکشن کمیشن بطور آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی والوں کو بلے کا نشان دے سکتا تھا، سزا تو صرف پارٹی کو ملی تھی انٹراپارٹی الیکشن نہ کرانے پر، آپ نے بلے کا نشان کسی اور کو بھی نہیں دیا انہیں بھی نہیں دیا، کوئی ہمارے فیصلے کی غلط تشریح کرنے بیٹھ گیا تو الگ بات ہے وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ اور وابستگی میں تضادات پر آر او کے پاس آزاد امیدوار ظاہر کرنا ہی بہترین حل تھا، چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا بیان حلفی دے کر دوسری جماعت کا ٹکٹ دینے پر نااہلی نہیں ہوتی؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے وکیل الیکشن کمیشن سے سوال کیا کہ اگر کوئی امیدوار پارٹی وابستگی اور ٹکٹ جمع کرائے تو کیا اسے آزاد ظاہر کیا جا سکتا ہے؟
، جسٹس اطہر من اللہ نے مقالمہ کیا کہ انتخابات میں عوام کی منشا دیکھی جاتی ہے،اگر کوئی انتخابات پر سوال اٹھے تو الیکشن کمیشن کے پاس معاملہ جاتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے مقالمہ کیا کہ سیاسی نشان بعد کی بات ہے، امیدوار انتخابات میں حصہ لیتاہے، پارٹی نہیں، امیدوار صرف پارٹی کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کرتا ہے، امیدوار کا حق ہے کہ اسے انتخابات کے لئے نشان ملے۔
چیف جسٹس نے استفار کیا کہ پی ٹی آئی کو جماعتی انتخابات نہ کرانے کی سزا ملی، بلے کا نشان الیکشن کمیشن نے کسی کوبھی الاٹ نہیں کیا، فیصلے کی غلط تشریح کا کسی کے پاس علاج نہیں ہے، بلے کے نشان اور پارٹی امیدوار کو نتھی کیوں کیا جا رہا ہے؟ پی ٹی آئی کا امیدوار کیوں کوئی اور جماعت جوائن کرے؟
وکیل الیکشن کمیشن نے فاضل جج کو جواب دیا کہ اس بات کا جواب پہلے دے چکا ہوں، مزید معاونت نہیں کروں گا۔
قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل الیکشن کمیشن سے مقالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سیکشن 240 کے مطابق صدر سے رجوع کیا جاتا ہے، صدر کی مرضی ہے کب جواب دیں نہ دیں یا کوئی اور بات کر دیں، صدر کہتے ہیں الیکشن کی تاریخ دینا ان کی ذمہ داری ہے لیکن تاریخ نہیں دیتے، اس وقت کے صدر نے آج تک نہیں بتایا کہ الیکشن کی تاریخ کیوں نہیں دی۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ جب امیدواروں کا تضاد سامنے آیا تو حکومت نگران تھی، نگران حکومت بھی الیکشن کمیشن کی طرح غیرجانبدار اور آزاد ہوتی ہے۔