اسلام آباد میں پُرامن جلسے جلوس کے انعقاد کا بل منظور
اسلام آباد: اسلام آباد میں اجازت کے بغیر جلسہ کرنے یا شرکت پر تین سال قید ہوگی
سینیٹ قائمہ کمیٹی داخلہ نے اسلام آباد میں پُرامن جلسے جلوس کے انعقاد کا بل منظور کرلیا، اب اسلام آبا دکے موضع سنگنجانی یا کسی بھی ایسے علاقے میں جلسہ جلوس کیا جاسکے گا جہاں حکومت اجازت دے گی، حکومتی اجازت کے بغیر جلسہ جلوس کرنے یا اس میں شامل ہونے والوں کو تین سال تک جیل میں ڈالاجاسکے گا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا کی جانب سے ”پرامن اکٹھ اور امن عامہ بل 2024ء پیش کیا گیا۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے بل پر بحث کرتے ہوئے کہا یہ بل اسلام آباد کی حد تک ہے، آج بھی اسلام آباد میں کنٹینرز لگے ہوئے ہیں لوگ پریشان ہیں، کوئی ایک جگہ مختص کردی جائے جہاں احتجاج کیا جاسکے، بل لانے کا مقصد ہے کہ اسلام آباد میں احتجاج کو قانون کے مطابق لایا جائے۔
چیئرمین کمیٹی فیصل سلیم نے کہا کہ قوانین موجود ہیں نیا بل لانے کا مقصد کیا ہے۔
سینیٹرسلیم ایچ مانڈوی والا نے کہا ہم جلسے جلوسوں کو قانون کے تحت لانا چاہتے ہیں، اکثر عدالت میں چیزیں چلی جاتی ہیں جس کے بعد عدلیہ اور انتظامیہ آمنے سامنے ہوتی ہے، کل کشمیر ہائی وے بلاک تھی اور ہم سارے سینیٹ اجلاس میں نہیں جاسکے، بیس پچیس لوگ تھے جنہوں نے کل سری نگر ہائی وے کو بلاک کر رکھا تھا، ڈپلومیٹک کور کے لوگ بھی پریشان ہیں، اس بل کو لانے میں کوئی سیاسی مقصد نہیں ہے بل کے پیچھے کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔
سینیٹر سیف اللہ اَبڑو نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا مرد مومن مردحق نے 58-2بی ایک شق ڈالی ،اس ایک شق کی وجہ سے دو دہائیوں تک سسٹم تباہ ہوتا رہا، نئے بل کو لانے سے قبل دیکھا جائے کہ موجودہ قانون کیا کہتا ہے، کل موسم کی وجہ سیدو فلائٹس ڈائیورٹ ہوئیں، اس ترمیم سے پہلے ہمیں بریف کیا جائے موجودہ قانون کیا ہے۔
سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے علاوہ مذہبی جتھے بھی آجاتے ہیں، اس کے بعد لوگ عدالتوں میں چلے جاتے ہیں۔
چئیرمین کمیٹی نے کہا کہ سیاسی جماعتیں تو باقاعدہ اجازت لے کر ہی ان جگہوں پر جاتی ہیں جو بغیر این او سی کے جاتے ہیں ان کیلئے تو قانون پہلے سے موجود ہے۔
سینیٹر ثمینہ زہری نے کہا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ آکر جائیدادوں کا نقصان کرتے ہیں، بلوچستان میں اینٹی اسٹیٹ ایلی منٹ تھے جہاں ان کو اجازت ملی تھی وہاں نہیں گئے کہیں اور چلے گئے، وہاں ہمارے جوان شہید ہوئے، یہ قانون لانے کا مقصد کسی سیاسی جماعتوں کو ٹارگٹ کرنا نہیں جس بندے کی پانچ دس ہزار فالونگ ہوتی ہے وہ جہاں مرضی جتھہ لاکر بیٹھ جاتا ہے۔
سینیٹر عمرفاروق نے کہا اس بل میں لکھا ہے کہ لاء انفورسمنٹ ایجنسیاں بتائیں گی، لاء انفورسمنٹ ادارے اپنا کام کرتے تو یہ نوبت ہی نہ آتی ، کوئٹہ میں ایک ڈیڑھ مہینے سے یہ دھرنے جلوس چل رہے ہیں، وہاں کی تاجر کمیونٹی پریشان ہے۔
سینیٹر سیف اللہ ابڑونے کہا کہ آئین میں پُرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے، کل کشمیر ہائی وے پر جو ہوا ان کو ویسے ہی اٹھانا چاہیے تھا جس طرح سینیٹر مشتاق کو اٹھایا گیا، مشتاق احمد اور ان کے بچوں کو کس طرح سڑک پر گھسیٹا گیا یہ لوگ کل ہمیں بھی اسی طرح اٹھائیں گے، ہم سینیٹرز استعمال ہوتے ہیں بل کہیں اور سے آتے ہیں اور ہم ٹول بنتے ہیں اگر پاکستانی پولیس اسرائیل کی حمایتی ہیں تو پھر تو ان کے ساتھ ٹھیک ہورہا ہے۔
اجلاس کے دوران سینیٹر سیف اللہ ابڑو اور سینیٹر شہادت اعوان میں شدید تلخ کلامی ہوئی سینٹر پلوشہ اور سینیٹر عمرفاروق نے بیچ بچاؤ کرایا جس کے بعد بل پر رائے شماری کرائی گئی اور سینیٹر سیف اللہ ابڑو کے سوا تمام ارکان کمیٹی نے بل کی حمایت کی اور بل کثرت رائے سے پاس کرلیا گیا۔ کمیٹی نے بل کو 6 ایک ووٹوں کی برتری سے منظور کرلیا۔