بلوچستان میں کوئی آپریشن نہیں کرنے جارہے : وزیر داخلہ
کچے کے لوگوں کا بندوبست کرنا پڑے گا، صوبوں سے بات کر رہے ہیں
اسلام آباد: ملک میں دہشتگردی کی حالیہ کارروائیوں میں ملوث اکثریت ان لوگوں کی ہے جو معاہدے کے تحت چھوڑے گئے
وزیر داخلہ محسن نقوی کا سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ بلوچستان میں کوئی آپریشن نہیں کرنے جارہے، 26اگست والا واقعہ کالعدم تنظیموں نے کیا اور بہت سارے گروپوں نے مل کر کیا۔
وزیر داخلہ نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایاکہ ملک میں دہشتگردی کی حالیہ کارروائیوں میں ملوث اکثریت ان لوگوں کی ہے جو معاہدے کے تحت چھوڑے گئے،یہ لوگ افغانستان میں بیٹھ کرکارروائیاں کررہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایف سی کے کیمپ پرکارروائی کی گئی اورحملہ اتنا شدید تھا کہ اس عمارت کے 14ٹاورزہیں اور چودہ کے چودہ ٹاورزپر فائرنگ ہورہی تھی، الحمدللہ ہماری فورسزنے ان کامقابلہ کیا، اگروہ اندرگھس جاتے تو خدانخواستہ زیادہ نقصان ہوسکتاتھا۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ خیبرپختونخواہ میں خفیہ اطلاعات پر کارروائیاں کی جارہی ہیں،جہاں بھی دہشتگردوں کی موجودگی کی اطلاع ملتی ہے وہاں کارروائی کی جاتی ہے۔
دہشتگردی میں اضافے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے واقعات کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہے کہ یہ افغانستان میں بیٹھ کرکارروائیاں کررہے ہیں اور افغانستان میں ٹی ٹی پی بڑے پیمانے پر جمع ہورہی ہے۔
وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرنے والے زیادہ ترلوگ وہی ہیں جن کو معاہدے کے تحت چھوڑا گیا تھا، ہمارے سیکرٹری داخلہ افغانستان جاکر سارے ثبوت دے چکے ہیں اورانہیں کہا ہے کہ ان کا بندوبست کریں۔
کچے کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کچے کے لوگوں کیساتھ بندوبست کرنا پڑے گا، لیکن کچے میں آپریشن سے پہلے ہم صوبوں سے بات کرناچاہتے ہیں کہ ایک دفعہ اگرہم یہ علاقہ کلیئر کروا دیتے ہیں تو دوبارہ دوسال بعد یہی صورتحال پیدانہ ہوجائے۔
محسن نقوی نے کہا کہ پنجاب اور سندھ سے اس معاملے پر بات چیت کررہے ہیں، دونوں صوبوں کو کہہ رہے ہیں کہ اگراس علاقے کوکلیئر کروادیا جاتا ہے تو پھر اقدامات کیے جائیں تاکہ دوبارہ ایسی صورتحال پیدانہ ہو۔