قائد اعظم آزاد اور خود مختار فلسطین کے حامی تھے اور انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر اپنا نقطہ نظر بیان کردیا تھا۔
یہ امت کے قلب میں خنجر گھسایا گیا ہے، یہ ایک ناجائز ریاست ہے جسے پاکستان کبھی تسلیم نہیں کرے گا
رپوٹ : فاطمہ زیدی
یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنائے جانے کے اعلان نے آزاد فلسطین کے عالمی معاہدوں کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔
اگر چہ پاکستان نے بھی فلسطین کی حمایت میں دبنگ اعلان کیا ہے لیکن پاکستانی قوم اور حکمرانوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ قائد اعظم آزاد اور خود مختار فلسطین کے حامی تھے اور انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر اپنا نقطہ نظر بیان کردیا تھا۔قائد اعظم کے پیروکاورں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ قائد اعظم کیا چاہتے تھے۔
قائد اعظم نے کہا تھا یہ امت کے قلب میں خنجر گھسایا گیا ہے، یہ ایک ناجائز ریاست ہے جسے پاکستان کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔
قائداعظم نے اسرائیل کو سفارتی تعلقات کے لیے بھیجے گئے ٹیلی گرامکے جواب میں یہ سخت ترین الفاظ تحریر کئے تھے .ذرا غور سے اسرائیل کا نقشہ دیکھئے یہ کسی خنجر سے ہی مشابہ محسوس ہوتا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل نے یہ شکل قائداعظم کی وفات کے کئی عشرے بعد اختیار کی ۔آج یہ خنجر امت کو لہو لہان کر رہا ہے۔ زیرک، دور اندیش اور دانا قائداعظم محمد علی جناح نے 1937ء میں ہی فلسطین کو درپیش خطرات کو محسوس کرتے ہوئے ممکنہ یہودی ریاست کے خلاف آواز اٹھانی شروع کر دی تھی اور غالباً برصغیر میں وہ اس وقت سب سے طاقتور آواز تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں قائداعظم نے یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کی کوشش کرنے پر امریکہ پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ’’ یہ نہایت ہی بے ایمانی کا فیصلہ ہے اور اس میں انصاف کا خون کیا گیا ہے۔
قائداعظم نے عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپنے حقوق کے لیے ڈٹ جائیں اورخبردار ایک یہودی کو بھی فلسطین میں داخل نہ ہونے دیں۔قیام پاکستان کے بعد اقوام متحدہ کی طرف سے تقسیم فلسطین کے فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے بانی پاکستان نے بی بی سی کے نمائندے کو بتایا کہ برصغیر کے مسلمان تقسیم فلسطین کے متعلق اقوام متحدہ کے ظالمانہ، ناجائز اور غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف شدید ترین لب و لہجہ میں احتجاج کرتے ہیں۔ ہماری حس انصاف ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم فلسطین میں اپنے عرب بھائیوں کی ہر ممکن طریقے سے مدد کریں۔
قائداعظم نے اندیشہ ظاہر کیا کہ ” اگر تقسیم فلسطین کا منصوبہ مسترد نہیں کیا گیا تو ایک خوفناک ترین اور بے مثال چپقلش کا شروع ہو جانا ناگزیر اور لازمی امر ہے ایسی صورت حال میں پاکستان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ ہوگا کہ عربوں کی مکمل اور غیرمشروط حمایت کرے‘‘اسرائیل کے خلاف قائداعظم کی اس پالیسی پر عمل کیا گیا جب پہلی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے چیکوسلاواکیہ میں ڈھائی لاکھ رائفلیں خرید کر عربوں کو دیں اور تین جنگی جہاز اٹلی سے خرید کر مصر کے حوالے کیے تاکہ وہ اسرائیل سے اپنا دفاع کر سکیں۔ جبکہ ابھی پاکستان خود ایک نوزائیدہ ریاست تھی۔
قائداعظم کے ان افکار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انکا ’’ مسلم قومیت ‘‘ کا نظریہ صرف برصغیر تک محدود نہیں تھا بلکہ ان کے سینے میں پوری امت مسلمہ کا درد تھا. قائداعظم کو اس وقت کے ناعاقبت اندیش اور بصیرت سے عاری ملاّ یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیتے رہے اور آج بھی قرار دیتے ہیں۔جہاں تک قائداعظم کی بات ہے مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اللہ کے ولی تھے جنکا یقین نہ کبھی اسلام پر متزلزل ہوا اور نہ ” مسلم قومیت ” پر۔ وہ شخص اللہ کا ولی ہے جس سے اللہ راضی ہو اور یقیناً قائداعظم محمد علی جناح سے اللہ راضی تھا جبھی تو اسلامی جمہوریہ کے قیام جیسے بڑے کام کے لیے منتخب فرمایاتھا۔
نوٹ: یہ بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔