26ویں آئینی ترمیم میں ازخود نوٹس کا اختیار وفاقی آئینی عدالت کو منتقل کرنے کی تجویز
عدالتی اصلاحات سے متعلق مجوزہ 26 ویں آئنی ترمیم کے مسودے کی مزید تفصیلات منظر عام پر آ گئیں ہیں ، مسودہ 31 صفحات پر مشتمل ہے ، 56 نکاتی مسودے میں 55 آئینی شقوں میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔
مجوزہ آئینی مسودے کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب اب آئین پاکستان کا حصہ نہیں رہے گا، چیف جسٹس آف پاکستان کا لفظ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ سے تبدیل کرنے ، سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار وفاقی آئینی عدالت کو منتقل کرنے اور صدارتی ریفرنس کی سماعت کا اختیار بھی سپریم کورٹ سے وفاقی آئینی عدالت کو منتقل کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔
آئینی ترمیم کے مسودے کے مطابق آئین کے آرٹیکل 187 کا اختیار وفاقی آئینی عدالت کو بھی حاصل ہوگا، آرٹیکل 187 کے تحت سپریم کورٹ مکمل انصاف کے لئے ہر حکم جاری کرنے کی مجاز ہے، آرٹیکل 187 کے تحت حکم دونوں بڑی عدالتوں کے دائرہ سماعت تک محدود کرنے، دوسری ہائیکورٹس میں تبادلے کیلئے مذکورہ جج کی رضامندی ختم کرنے کی تجویز ہے ۔
مسودے کے مطابق دوسری ہائیکورٹ میں جج کا تبادلہ اب جوڈیشل کمیشن کی سفارش پر ہوگا،آئینی تشریح سے متعلق تمام اپیلیں سپریم کورٹ سے آئینی عدالت کو منتقل ہوں گی،سپریم کورٹ میں زیرسماعت ازخود نوٹس بھی آئینی عدالت کو منتقل ہوجائیں گے،مجوزہ آئینی ترامیم میں ہائیکورٹ کو ازخود نوٹس لینے سے واضح طور پر روکنے کی تجویز دی گئی ہے ۔وفاق اور صوبوں یا صوبوں کے باہمی تنازعات کے مقدمات بھی آئینی عدالت کو منتقل ہوں گے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی متعدد دفعات کو بھی آئین کا حصہ بنانے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ ازخود نوٹسز کی اپیلیں سننے والے بینچ باقاعدہ آئین کا حصہ بن جائیں گے۔