آئینی ترمیم پر اتفاق رائے چاہتےہیں ، آئینی ترمیم پر ڈیڈ لائن اور ٹائم فریم ہمارا نہیں حکومت کا مسئلہ ہے
پیپلز پارٹی تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کرچلنا چاہتی ہے ، بلاول بھٹو
اسلام آباد: چیئرمین پیپلز پارٹی نے فوجی عدالتوں اور مخصوص نشستوں سے متعلق حکومتی آئینی ترامیم کی مخالفت کردی۔
بلاول بھٹو زرداری نےکہا ہے کہ مجوزہ آئینی ترمیم پاس کرانے کیلئے ٹائم لائن کا مسئلہ نہیں، لیکن وہ سمجھتے ہیں آئینی ترمیم 25 اکتوبر تک پاس کرالی جائے گی۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا سیاست میں جو ڈر گیا وہ مر گیا۔آئینی ترمیم پر ڈیڈ لائن اور ٹائم فریم ہمارا نہیں حکومت کا مسئلہ ہے ۔ حکومت کے پاس ضمیر پر ووٹ لینے کا آپشن موجود ہے مگر آئینی ترمیم پر اتفاق رائے چاہتےہیں، جو مرضی چیف جسٹس آ جائے ہمیں فرق نہیں پڑتا ۔
انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی کوشش تھی کہ آئینی ترامیم پر مولانا سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلا جائے،جے یو آئی کا ڈرافٹ آئے گا تو بیٹھ کر دیکھیں گے،بات چیت کے بعد جو سامنے آئے گا وہ ترمیم لائیں گے۔
چییئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ ہمارے لیے مجوزہ آئینی ترمیم پاس کرانے لیے ٹائم لائن کا مسلہ نہیں، البتہ حکومت کےلیے ہو سکتی ہے، بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آئینی عدالتوں اور عدالتی اصلاحات پرمولانا مان گئے تھے۔ حکومت آرٹیکل 8اور آرٹیکل 51میں فوجی عدالتوں اور مخصوص نشستوں سے متعلق ترامیم لے آئی جس پر پیپلز پارٹی نے فوجی عدالتوں اور مخصوص نشستوں پر ترمیم سے انکار کردیا۔
انہوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے عدالتوں کا چھٹی کے دن آرڈر آیا جس کا چیف جسٹس کو بھی علم نہیں تھا، ہم عدالتی اصلاحات چاہتے ہیں اور صوبوں کے مساوی حقوق چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں مرکز کے ساتھ ساتھ صوبوں میں بھی آئینی عدالتیں قائم ہوں اس سے عوام کو فوری ریلیف ملے گا۔
چییئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ صوبوں میں آئینی عدالتوں والا معاملہ آج طے نہ بھی ہوا تو یقین ہے ایک دن ضرور ہوگا، بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اعلی عدالتوں میں تقرریاں عدلیہ ، پارلیمنٹ اور وکلاء کی نمائندہ کمیٹی کے ذریعے ہونی چائیں، جو مرضی چیف جسٹس آجائے ہمیں فرق نہیں پڑتا لیکن افتخار چوہدری جیسا طرز عمل نہیں ہونا چاہیے، جسٹس منیب نے 63اے کے فیصلے میں اپنا ذہن واضح کر دیا ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی اور اس کی جماعت کو ہر ایشو موقع دیا لیکن انہوں نے غیر سنجیدگی دکھائی، بانی پی ٹی آئی اگر اپریل 2022سے سیاسی فیصلے کرتے تو آج وہ دوبارہ وزیر اعظم ہوتے،بانی پی ٹی آئی آج بھی سیاستدانوں سے نہیں اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتا ہے، مجھے تو عمران کا کوئی سیاسی مستقبل روشن نظر نہیں آتا، ہم نے سیاسی اتفاق رائے کےلیے کمیٹی بنائی پی ٹی آئی نے اس کا بھی بائیکاٹ کردیا، جب تک نیب ہوگا ملک میں سیاسی انجنئیرنگ ہوتی رہے گی۔