دوحہ: طوفان الاقصیٰ نے مسجد اقصیٰ کو شہید کیے جانے کے مذموم صہیونی منصوبے کوناکام بنایا
حماس کے بیرون ملک امور کے سربراہ خالد مشعل نے کہا ہے کہ ’طوفان الاقصیٰ‘ نے مسجد اقصیٰ کو شہید کیے جانے کے مذموم صہیونی منصوبے کوناکام بنایا اور اس کے مکروہ عزائم کے سامنے بند باندھا۔ صیہونی وجود کو الجھا دیا۔ ہماری عوام میں مزاحمت کی روح بحال کی جس نےدشمن کو گھیرے میں لے لیا۔
انہوں نے کہا کہ طوفان الاقصیٰ نے صہیونی دشمن کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا۔
خالد مشعل نے العربی چینل کے ساتھ ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں وضاحت کی کہ طوفان اقصیٰ میں ہمارے لوگوں، ہمارے بچوں، ہماری خواتین اور ہمارے بھائیوں کے خون کی بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ یہ سب غزہ میں ہمارے اقارب اور ہماری قوم ہے۔ غزہ میں ہمارے لوگ ہمارے لیے فخر کی علامت ہیں۔ ان کے دکھ ہمیں عزیز ہیں۔ اس لیے ہم پچھلے دور میں جتنا کام کر رہے ہیں اتنا ہی انتظام کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ جنگ جیتنی ہے۔ ہم جارحیت روکنے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں تاکہ ہماری زخم رسیدہ قوم کو راحت مل سکے۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ حکمت عملی کے نقصانات کے بارے میں ان کے پچھلے بیانات کا مطلب یہ تھا کہ ہمارے حکمت عملی کے نقصانات مزاحمت کی سطح پر تھے، لیکن جہاں تک ہمارے لوگوں سے متعلق ہمارے نقصانات کا تعلق ہے تو یہ ہمارے لوگ ہیں۔مزاحمت ان سے الگ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حماس اپنے عوام کے خلاف جارحیت کو روکنے میں کبھی ناکام نہیں ہوئی اور نہ ہی اس عظیم سواد اعظم کو ریلیف فراہم کرنے میں اس نے کوئی کوتاہی برتی ہے۔اس پر ہم فخرکرتے ہیں۔ غزہ میں اپنا سر اٹھا کر چلتے ہیں۔یہ تاریخ کے سب سے بڑے مقبول انکیوبیٹروں میں سے ایک ہے، ہماری مزاحمت اپنے عظیم عوام کے لیے لڑ رہی ہے۔
خالد مشعل نے نشاندہی کی کہ تحریک غزہ کے خلاف جارحیت کو روکنے کے لیے بین الاقوامی میدان میں مصری اور قطری ثالثوں اور دیگر ثالثوں کے ذریعے مذاکرات کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ دنیا گواہ ہے حتیٰ کہ امریکی انتظامیہ بھی لیکن وہ متعصب ہے۔ نیتن یاھو جنگ بندی اور مذاکرات میں اصل رکاوٹ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بائیڈن نے ایک اقدام کیا پھراسے سلامتی کونسل میں منظور کر لیا گیا۔ حماس نے اسے فراخ دلی سے قبول کیا اور اس پر مثبت رد عمل دیا مگر نیتن یاھو کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ثالث کچھ نہیں کر سکے۔ لیکوڈ صہیونی ایجنڈے کی بنیاد پر جنگ جاری رکھنے پر مصر ہے۔
حمایتی محاذوں کے بارے میں خالد مشعل نے اس بات پر زور دیا کہ مزاحمتی اور حمایتی قوتوں کو اپنے قائدین کے قتل کی قیمت چکانی پڑی ہے۔ ہم سید حسن نصراللہ ، اسماعیل ھنیہ، صالح العاروری سے محروم ہوئے ہیں۔مگرہم سب فلسطین کی آزادی کے لیے قربان ہونے کو تیار ہیں۔
خالد مشعل نے کہا کہ “جب نیتن یاہو ڈیٹرنس کی تصویر کو بحال کرنے میں ناکام رہا اور غزہ میں پورے ایک سال تک کچھ حاصل نہیں کر سکا تو وہ لبنانی محاذ کی طرف بھاگا تاکہ امیج کا کچھ حصہ بحال کر سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ “ہمارے خطے اور تاریخ میں سبق یہ ہے کہ ہمارے ملک میں صلیبیوں کو فلسطین میں سو سال اور اس خطے میں دو سو سال بعد منگولوں کو بھی شکست ہوئی۔ جدید استعمار ٹوٹ چکا اور تمام نوآبادیاتی دراندازوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ ہم “فاتح” ہیں۔