بانی تحریک انصاف کی توشہ خانہ 2 کیس میں بھی ضمانت منظور
اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ 2 کیس میں بھی بانی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کی ضمانت منظور کرلی۔
عدالت نے بانی پی ٹی آئی کو 10، 10 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے انہیں ٹرائل کورٹ کے سامنے بھی پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
یاد رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ 2 کیس میں 13 جولائی 2024 کو گرفتار کیا تھا جبکہ بشریٰ بی بی کی ضمانت پہلے ہوچکی ہے۔
بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے بانی پی ٹی آئی کی توشہ خانہ 2 کیس میں درخواست ضمانت پر سماعت کی جس کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے ) کے پراسیکیوٹر عمیر مجید ملک عدالت عالیہ میں پیش ہوئے۔
سماعت کا احوال
عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ انہوں نے جیولری سیٹ کا تخمینہ کیسے لگایا ہے؟ جس پر سلمان صفدر نے بتایا کہ یہ تو عدالت میں استغاثہ بتائے گی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ چالان میں رسید بشریٰ بی بی کی ہے یا بانی پی ٹی آئی کی ہے؟ جس پر سلمان صفدر نے بتایا کہ چالان میں رسید پر بشریٰ بی بی کا نام ہے، صہیب عباسی کو اس کیس میں وعدہ معاف گواہ بنایا گیا ہے جبکہ انعام اللہ شاہ کو استغاثہ نے گواہ بنایا ہے وہ وعدہ معاف گواہ نہیں ہیں۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت جو بھی فیصلہ کرے لیکن میڈیا میں پہلے سے ہے کہ ضمانت منظور ہو جائے گی جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ میڈیا کو چھوڑ دیں اُن سے خود کو مستثنیٰ کر لیں، میڈیا میں کہا جاتا ہے کہ جان کر بیمار ہو گیا، جان کر نہیں آیا، میڈیا اگر سنسنی نہیں پھیلائے گا تو ان کا کاروبار کیسے گا۔
بیرسٹرسلمان صفدر کا کہنا تھا کہ ایک گراؤنڈ یہ بھی ہے اس کیس کو رجسٹر کرنے میں ساڑھے 3 سال کی تاخیر ہے، توشہ خانہ پالیسی کے مطابق تحائف لیے گئے ہیں، اس وقت ان تحائف کی جو مالیت تھی پالیسی کے مطابق ادا کرکے لیا ہے، قیمت کا تعین کرنے والا کہہ رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے دھمکی آئی، صہیب عباسی بیان دیتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی میرے پاس نہیں آئے، صہیب عباسی کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے انعام اللہ شاہ کے ذریعے تھریٹ کیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا کسٹم کے تینوں اپریزرز نے بھی کسی دھمکی کا ذکر کیا؟ جس پر سلمان صفدر نے بتایا کہ نہیں، وہ تینوں افسران کہتے ہیں کہ اُن کو کسی نے اپروچ نہیں کیا، اگر کسی نے اپروچ نہیں کیا تو اُن تینوں نے اپنا کام کیوں نہیں لیا، توشہ خانہ پالیسی 2018 کی سیکشن ٹو کے تحت میں نے تحائف لیے ، جو قیمت کسٹم اور اپریزر نے لگائی میں نے وہ قیمت دیکر تحفہ رکھ لیا۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ آج انہوں نے ساڑھے تین سال بعد بیان بدلا ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے توشہ خانہ تفصیلات خفیہ رکھنے کی پالیسی پر اہم ریمارکس
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پی ٹی آئی حکومت کے توشہ خانہ تفصیلات خفیہ رکھنے کی پالیسی پر اہم ریمارکس دیے کہ پچھلی حکومت توشہ خانہ تفصیلات نہیں بتاتی تھی پوچھتے تھے تو تفصیلات چھپائی جاتی تھیں، ہائیکورٹ میں گزشتہ حکومت کہہ رہی تھی کہ توشہ خانہ کا کسی کو پتہ نہیں ہونا چاہیے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ کچھ چیزوں پر تحریری جمع کرواؤں گا۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر کے دلائل
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے گواہوں کے بیانات پڑھے ہیں؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ 18 ستمبر کو گواہوں کو نوٹس کیا تھا ، گواہ آئے تھے انہوں نے پہلے سے نیب کو دیئے بیانات کی تصدیق کی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے خود گواہوں کے بیانات پڑھے ہیں ؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ جی 19 ستمبر کو میں نے پڑھے تھے۔
بعدازاں ، سماعت میں وقفہ کردیا گیا۔
وقفہ کے بعد سماعت شروع ہونے پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بشریٰ بی بی کے ٹرائل کورٹ میں عدم پیشی کا معاملہ اٹھایا اور کہا کہ ملزمان نے فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی کے لیے تاخیری حربے استعمال کئے، ٹرائل کورٹ میں ملزمان کے کنڈکٹ کا معاملہ عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، اسی عدالت نے بشریٰ بی بی کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور کی تھی، بشریٰ بی بی ٹرائل کورٹ میں پیش نہیں ہو رہیں جس کے باعث فرد جرم تاخیر کا شکار ہے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ 161 کا جو بیان پڑھا گیا وہ نیب تفتیشی افسر نے ریکارڈ کیا جبکہ اب یہ معاملہ ایف آئی اے کے پاس آچکا ہے جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ 164 کا بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کیا جاتا ہے۔
جسٹس گل حسن نے ریمارکس دیے کہ قانون تبدیل ہونے کے بعد کیس نیب سے ایف آئی اے کے پاس گیا، جن 3 کسٹم افسران نے قیمت غلط لگائی اُن کیخلاف کیا کارروائی ہوئی؟ جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ کسٹمز افسران سے کوتاہی ہوئی لیکن وہ کرمنل مس کنڈکٹ نہیں تھا، نیب نے اُن افسران کے خلاف کوئی محکمہ جاتی کارروائی کی سفارش نہیں کی۔
جسٹس گل حسن نے ریمارکس دیے کہ چلیں کہہ دیتے ہیں کہ وہ بہت اچھے لوگ ہیں۔