سال 2024 عدلیہ کے احکامات، اختیارات اور تنازعات کا سال
سال 2024 پاکستان میں عدلیہ کے احکامات، اختیارات اور تنازعات کا سال رہا اور بالاخر نتیجہ چھبیسویں آئینی ترمیم کی صورت میں سامنے آیا۔
سال 2024 کا کا سورج طلوع ہوا تو اس وقت عدالت عظمٰی کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی تھے، سب سے بڑا چیلنج تھا رکے ہوئے عام انتخابات یقینی بنانا۔ سپریم کورٹ کی مداخلت سے 8 فروری کا قرعہ تو گزشتہ برس دسمبر میں ہی نکل چکا تھا مگر اس پر عملدرآمد بھی یقینی بنایا گیا۔ اسی دوران پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن کا فیصلہ بھی آیا۔ یہیں سے ایک تنازعہ حل ہوا تو دوسرے کی بنیاد پڑگئی۔ سال بھرعدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان تناؤ کی صورتحال رہی۔
صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن میاں روف عطا کا کہنا ہے کہ سال 2024 عدلیہ کیلئے مثالی نہیں رہا تاہم موجود چیف جسٹس کے آنے سے آنے والے وقت کو بہتر دیکھ رہا ہوں ۔ آئینی بنچ بن گیا اس کی روشنی میں بنچ نے اپنا کام شروع کر دیا، مقدمات نمٹا رہے ہیں جو مدت سے زیر التوا کیس تھے ان کے فیصلے بھی آپ کے سامنے آرہے ہیں تو بہتری کی امید رکھتے ہیں،
عام انتخابات کے بعد بظاہر سب معمول پر آچکا تھا۔ سپریم کورٹ سے ذوالفقار علی بھٹو کے ٹرائل کو غیر شفاف قرار دینے ، نیب ترامیم کی بحالی کے ذریعے پارلیمنٹ کے اختیارات تسلیم کرنے جیسے فیصلے آرہے تھے مگر پھر مخصوص نشستوں کا تنازع سپریم کورٹ پہنچ گیا۔
طویل سماعتوں کے بعد سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل اور الیکشن کمیشن کے درمیان کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے ریلیف پاکستان تحریک انصاف کو دےدیا۔حکومت نے اس فیصلے کیخلاف واضح پوزیشن لی اور یہیں سے نئی آئینی ترمیم کا خیال پیدا ہوا۔
پہلے ججز کی مدت ملازت بڑھانے کی بات چلی پھر الگ آئینی عدالت کی۔ ترمیم کی جو آخری شکل نکلی اس میں چیف جسٹس کی تعیناتی کا طریقہ کار بدل دیا گیا اور آئینی بنچ بنا کر سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے اختیارات محدود کر دیئے گئے۔
وکیل رہنما ریاست علی آزاد کا کہنا ہے کہ عدلیہ کو باکل غیر فعال کر دیا گیا، ہم امید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ اور ججز اس کیخلاف کھڑے ہوں گے۔
چھبیسیویں ترمیم کے نتیجے میں قاضی فائز عیسٰی کے بعد سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر موجود جسٹس یحیی آفریدی چیف جسٹس پاکستان بن گئے۔ آتے ہی کہا اختیارات میں توازن کے اصول پر سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ جیل ریفارمز سمیت مختلف اصلاحات شروع کیں مگر چھبیسیویں ترمیم کا تنازعہ حل ہونا باقی ہے۔ سینئرترین جج جسٹس منصور علی شاہ اب بھی انہیں خط پرخط لکھ رہے ہیں۔
دو ہزار چوبیس میں عدلیہ سے متعلق ہوئی آئینی ترمیم کیا 2025 میں باقی رہ پائے گی؟ فیصلے کیلئے قانونی جنگ کا آغاز نئے سال کے پہلے مہینے سے ہو جائے گا۔ آئینی بنچ نے جنوری کے دوسرے ہفتے میں کیس مقرر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔