Featuredپنجاب

انسانی اسمگلرز کی سہولت کاری میں ایف آئی اے کے افسران ملوث نکلے

سال 2024 ایف آئی اے لاہور کے لئے کارکردگی کے حوالے سے کافی بھاری رہا۔ ادارے نے کرپشن اور انسانی سمگلنگ میں ملوث ہونے کی وہ داستانیں رقم کیں جس کی بازگشت اسلام آباد میں اقتدار کے ایوانوں تک سنائی دی گئی۔

ایف آئی اے لاہور نے انسانی سمگلنگ کے جتنے ملزمان گرفتار کئے اس سے کہیں زیادہ تعداد میں ایف آئی اے کے اپنے اہلکار انسانی سمگلنگ میں ملوث رہے۔ ایف آئی اے لاہور نے 12 بدنام زمانہ انسانی سمگلرز گرفتار کئے تو 160 سے زیادہ ایف آئی اے اہلکاروں کے خلاف بھی انسانی سمگلنگ کے الزام میں کارروائیاں ہوئیں۔

جہاں ادارے کے ماتحت افسران کے خلاف کارروائیاں کی گئیں وہیں اس کے کچھ اعلی افسران کو بھی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا اس کی سب سے بڑی مثال ایف آئی اے کے لاہور اور اینٹی کرپشن سرکل کے سربراہان کو 13 ستمبر کو تبدیل کردیا گیا۔

سرکل کے سربراہ سمیت 10 افسران کو کلوز کر کے انہیں ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے نارتھ کے آفس میں رپورٹ کرنے کو کہا گیا۔ یہ سب کارروائیاں اس وقت کی گئیں جب ایف آئی اے لیکسو میں اووربلنگ اور پاسکو میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات کر رہا تھا۔

دونوں ایشوز پر وزیر اعظم پاکستان آفس اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی کڑی نظر تھی۔ لیکن دونوں معاملات کی تحقیقات میں ایف آئی اے بری طرح ناکام ہوا بلکہ ملک کے ایک حساس ادارے کی رپورٹ کے مطابق بے ضابطگیوں کی بھی اطلاعات تھیں۔ جس کی بنیاد پر کارروائی ہوئی اور تبادلے ہوئے۔

اینٹی کرپشن سرکل سے تبدیل ہونے والے افسران کو تو جلد ہی دوبارہ پوسٹنگ مل گئیں لیکن ڈائریکٹر ایف آئی اے کی دوبارہ پوسٹنگ کا نوٹیفیکیشن ابھی تک نہ ہو سکا۔ ایف آئی اے کے برے دن اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے پاسکو کی انکوائری کے دوران پاسکو کے ایک بہت ہی اچھی شہرت کے حامل افسر سابق ایم ڈی کے خلاف نہ صرف ایف آئی آر درج کی بلکہ اسے گرفتار بھی کر لیا۔

لیسکو میں اوور بلنگ کا معاملہ آج بھی جوں کا توں ہے۔ ایف آئی اے افسران نے اووربلنگ میں ملوث لیسکو افسران سے سازباز کر لی۔

دو روز قبل وزیر اعظم پاکستان نے سابق آئی جی پنجاب پولیس مشتاق احمد سکھیرا کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو اووربلنگ کے مسئلے پر تحقیقات کر کے آٹھ دنوں میں وزیر اعظم کو رپورٹ پیش کرے گی۔ وزیر اعظم نے اووربلنگ کے جن پر قابو پانے کے لئے سمارٹ میٹرز متعارف کرانے کی بھی ہدایت دی ہے۔

یونان کشتی حادثوں اور اس میں پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کی خبروں سے نہ صرف قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا بلکہ بین الاقوامی سطح پر ملکی بدنامی بھی ہوئی جس پر وزیر اعظم نے تحقیقات کا حکم دیا تو پتہ چلا کہ بہت سارے ایف آئی اے کے افسران ہی انسانی سمگلروں کے سہولت کار ہیں۔

پہلے ایف آئی اے نے اپنے ہی 87 افسران کی لسٹ بنائی کہ ان افسران کو ملک کے کسی بھی ائیرپورٹ یا بارڈر پر تعینات نہیں کیا جائے گا کیونکہ ان پر الزام ہے کہ وہ انسانی سمگلنگ میں ملوث ہیں۔ ڈی جی، ایف ائی اے آفس سے 31 افسران کے نام پی این آئی ایل (پرویژنل نیشنل آئیڈینٹی فیکیشن لسٹ) میں ڈالنے کی سفارش کی گئی۔ ان افسران پر الزام ہے کہ وہ مبینہ طور پر یونان کشتی حادثے میں ملوث ہیں۔

اس کے بعد سیالکوٹ ائیر پورٹ پر تین افسران کے خلاف انسانی سمگلرز کی سہولت کاری کے الزام میں ایف ائی اے نے مقدمہ درج کیا۔ چند دن پہلے فیصل آباد ائیرپورٹ پر تین افسران کے خلاف اسی الزام میں کارروائی کی گئی کہ وہ یونان کشتی حادثے میں جاں بحق کچھ مسافروں کو باہر بھیجنے میں ملوث تھے۔ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ چند دن پہلے ڈی جی ایف ائی اے نے مزید 32 ایف آئی اے اہلکاروں کو اسلام آباد بلایا جن میں انسپکٹر اور اس کے نیچے عہدوں کے افسران شامل ہیں ان پر بھی الزام ہے کہ وہ انسانی سمگلنگ میں ملوث ہیں۔

گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری کے خلاف جو کارروائیاں کی گئیں اس میں بھی مزنگ کر علاقے میں موجود ایک ہسپتال میں ایک سے زیادہ دفعہ غیرقانونی اور غیر انسانی پیوند کاری ہوئی اور ایف آئی اے نے کارروائی کرتے ہوئے ملزمان کو گرفتار کیا مگر اس ہسپتال کے مالک کے خلاف نامعلوم وجوہات کی بنا پر کارروائی نہ ہو سکی۔ ایف آئی اے افسران کے گردوں کا کاروبار کرنے والے ملزمان سے اچھے روابط کی بازگشت بھی ایف ائی اے میں سنائی دیتی رہی۔

 

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close