ٹیکس وصولی میں کسی کو ناراض کرنا پڑا تو تیار ہیں، مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ
اسلام آباد: وزیراعظم کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ سیاست سے بالاتر ہوکر ملکی مفاد کو دیکھنا ہوگا، ٹیکس وصولی میں کسی کو ناراض کرنا پڑا تو تیار ہیں۔
پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے امیر لوگوں کو پاکستان کے ساتھ سچا و مخلص ہونا ہوگا اور ٹیکس دینے ہوں گے۔
اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران مشیر خزانہ کے ساتھ چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو شبر زیدی، وزیر توانائی عمر ایوب، وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر اور وفاقی وزیر پلاننگ، ترقیات و اصلاحات خسرو بختیار بھی موجود تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے، مہنگائی برداشت کرنا ہوگی، مشیر خزانہ
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ہمارے ملک میں امیر طبقہ کم ٹیکس دیتا ہے، ہمارے یہاں ٹیکس کی شرح 11، 12 فیصد ہے جو دنیا کی کم ترین شرح میں سے ایک ہیں۔
عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ہمارے خطے کے دیگر ممالک کے امیر لوگ ہم سے کافی زیادہ ٹیکس دیتے ہیں، لہٰذا پاکستان میں یہ قابل قبول بات نہیں اور اگر ٹیکس کی وصولی کے لیے کچھ لوگوں کو ناراض کرنا پڑے گا تو ہم تیار ہیں۔
حکومت کی سادگی مہم کا حوالہ دیتے ہونے انہوں نے کہا کہ پہلے حکومت نے اپنے اخراجات کو واضح طور پر کم کرکے لوگوں کے لیے مثال قائم کی۔
پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے اخراجات کم کرنے ہیں اور عوام کو یہ پیغام دینا ہے کہ ہم اخراجات کم کرنے میں سب سے آگے ہوں گے۔
عبدالحفیظ شیخ نے مزید کہا کہ کسی اور سے قربانی مانگنے سے قبل خود قربانی دینا ہوگی، اس کے لیے ہم نے کفایت شعاری دکھائی اور سول حکومت کے اخراجات کو واضح طور پر کم کرکے 468 ارب سے 431 ارب کردیا ہے اور مہنگائی کی وجہ سے بڑھنے والی قیمتوں کے باوجود ہم نے اسے کم کیا۔
مشیر خزانہ نے دفاعی بجٹ سے متعلق بتایا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلح افواج نے بجٹ کو گزشتہ سال کی سطح پر قبول کیا اور اس میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، یہ دنیا اور پاکستان کے لوگوں کے لیے ایک بہت اچھا پیغام ہے کہ کس طرح حکومت کے اخراجات کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ مشکل حالات سے نمٹنا ضروری ہے اور اس کے لیے سیاست سے بالاتر ہوکر ملک مفاد کو سامنے رکھنا ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے آنے سے پہلے 10 کروڑ ڈالر کے غیر ملکی قرضے لیے ہوئے تھے اور ان کی ادائیگی ڈالر میں ہی کرنا تھی جبکہ ڈالر کمانے کی صورتحال ایسی تھی کہ برآمدات کی ترقی صفر تھی اور تجارت کا فرق 40 ارب ڈالر کے قریب تھا۔
پاکستان کے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف ) سے قرض لینے سے متعلق انہوں نے بتایا کہ ماضی کے قرضوں کا سود ادا کرنے کے لیے مزید قرض لیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آئی تو 31 ہزار ارب روپے کا قرضہ اسے ورثے میں ملا۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے دیگر لوگوں کے لیے گئے قرضے واپس کرنے ہیں کیونکہ پاکستان دیوالیہ نہیں ہوسکتا اور ماضی کے قرضوں کا سود ادا کرنے کے لیے 2 ہزار 900 ارب روپے رکھے جارہے ہیں۔
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر معاشی صورتحال ایسی ہونے کے باوجود ہم نے چند چیزوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں 3، 4 ایسے شعبے ہیں یہاں اخراجات کم کرنے کے بجائے بڑھائے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پہلا یہ کہ مشکل سے گزرنے کے باوجود کمزور، غریب طبقے کے لوگوں تک پہنچنا چاہیے اور انہیں یہ احساس نہیں دلانا چاہیے کہ ہم انہیں بھلا چکے ہیں اور اسی کے لیے ہم نے سماجی تحفظ کے موجودہ بجٹ کو 100 ارب سے بڑھا کر 191 ارب روپے تک لے گئے۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بتایا کہ ہم نے بجلی کی قیمتیں بڑھنے کی صورت میں کمزور طبقے کو تحفظ دینے کا فیصلہ کیا اور 300 یونٹس سے کم بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے سبسڈی رکھی، بجٹ میں اس مد میں 216 ارب روپے رکھے جارہے ہیں تاکہ چھوٹے صارفین کو بجلی کی قیمتیں بڑھنے کی تکلیف سے بچایا جائے۔
بجٹ میں ترقیاتی بجٹ کے حوالے سے بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس سے ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں اور انفرااسٹرکچر بنتا ہے گزشتہ برس اس مد میں 550 ارب روپے خرچ ہوئے جبکہ اس سال 950 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ ڈیمز، کراچی، بلوچستان، سابق قبائلی علاقوں کے لیے بھی رقم رکھی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تیسرا شعبہ جہاں ہم نے توجہ مرکوز کی وہ غربت اور مسائل کا شکار علاقے خصوصی طور پر قبائلی اور بلوچستان کے کچھ علاقوں پر تھی، اس کے لیے فاٹا کے ضم علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے ان اضلاع کے لیے 152 ارب روپے رکھے گئے ہیں تاکہ وہ پاکستانی معاشرے میں مکمل طور پر ضم ہوجائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں برآمدات کرنے والوں پر زیرو ریٹنگ ہے یعنی برآمدی شعبے پر کوئی ٹیکس نہیں ہے اور یہ نظام میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی، تاہم برآمدات کے ساتھ اپنے ملک میں اشیا فروخت کرنے پر ٹیکس دینا ہوگا۔
مشیر خزانہ نے بتایا کہ برآمد کنندگان کو برآمدات بڑھانے کے لیے نئے مالی سال کے بجٹ میں مراعات دی گئیں، جبکہ حکومت کی جانب سے اندرونی خسارے پر قابو پانے کی کوشش کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ یہ غلط تاثر ہے کہ برآمدی شعبے کے ٹیکس نظام میں کوئی چھیڑ چھاڑ کی گئی بلکہ ہم برآمد کنندگان کو مدد دینے کے لیے مزید اقدامات کر رہے ہیں، تاہم اس وقت ہمارے اندازے کے مطابق مقامی شعبے میں 1200 ارب روپے کی ٹیکسٹائل کی سیل ہورہی ہے لیکن ہمیں 6 سے 8 ارب روپے ٹیکس ملتا ہے جو ناقابل قبول ہے، اس ملک میں کاروبار کریں لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ 1200 ارب پر 6 یا 8 ارب کا ٹیکس دیں۔
عبدالحفیظ شیخ نے ڈالر کی قدر سے متعلق بتایا کہ برآمدات میں واضح کمی آئی ہے جس سے ڈالر کی قیمت بڑھی۔
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کل موجودہ حکومت نے اپنا پہلا بجٹ پیش کیا، جس میں 3 سے 4 اہم چیزوں پر توجہ دی گئی، سب سے پہلا بیرونی قرضوں پر منظم حد تک قابو پانا ہے اور اس کے لیے 9 ارب 2 کروڑ ڈالر موبلائزڈ کیے گئے، پیٹرولیم مصنوعات کے لیے تاخیری ادائیگیوں کا انتظام کیا گیا۔
اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ درآمدات پر ڈیوٹی لگائی گئی اور برآمدی شعبے کو مراعات دی گئیں۔
انہوں نے بتایا کہ بجٹ میں دوسری توجہ مالی خسارے پر تھی کہ یعنی آمدنی اور اخراجات میں توازن اور اس کے لیے ریونیو کا ہدف چیلنجنگ بنایا ہے۔
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ تنقید کی جارہی ہے کہ ریفنڈز کے سلسلے میں مشکل نہ ہو، اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ ریفنڈ کے سلسلے میں بہت بہتری کی گنجائش ہے اور اس نظام میں بہتری کے حوالے سے ایک گیم پلان پیش کریں گے ساتھ ہی کوشش کریں گے کہ بنگلہ دیش اور چین کا ماڈل اپنایا جائے، ہم کاروباری شعبے کو بھی دعوت دے رہے ہیں کہ وہ تجاویز دیں تاکہ اس معاملے کو ختم کیا جائے۔
ٹیکس نظام میں بہتری کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مختلف چیزوں پر سیلز ٹیکس مینوفکچرنگ کے موقع پر وصول کیا جائے تاکہ گڑ بڑ کے امکانات کم ہوں۔
عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ ہم فائلر اور نان فائلر کے فرق کو بھی ختم کر رہے ہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ لوگ مستقل نان فائلر رہیں، اس نظام کو ختم کیا جارہا ہے اور اب ماضی میں نان فائلر رہنے والا کوئی گاڑی یا جائیداد خریدے گا تو اسے 45 دن میں فائلر بننا پڑے گا، اگر ایسا نہیں کرے گا تو 45 دن بعد اسے نوٹس بھیج دیا جائے گا، جس کے بعد اسے خریدی گئی گاڑی یا جائیداد سے متعلق آمدنی کے ذرائع ظاہر کرنے ہوں گے، اس اقدام کے کافی اچھے اور دور رس نتائج آئیں گے۔
مزید بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فائلر کے طریقہ کار کو بھی کافی وضع کیا گیا ہے، نان فائلر بذریعہ کمپیوٹر 6 منٹ میں فائلر بن سکتا ہے۔
ٹیرف کا نظام بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ متعدد مصنوعات پر مشتمل ایک ہزار 655 لائنز، خام مال جو پاکستان میں پیدا نہیں ہوتا اس پر کسٹم ڈیوٹی صفر کردی ہے جو ایک بڑا اقدام ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لگژری اشیا کی درآمدات پر ڈیوٹی میں 4 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے کیونکہ اگر امیر لوگ ایسی چیزیں استعمال کرنا چاہتے ہیں تو اضافی 4 فیصد ادا کریں۔
اس موقع پر صحافیوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سیاست اور معیشت کے حقائق کو مدغم نہیں کرنا چاہیے، سیاست میں اختلاف رائے کا اظہار کرتے ہیں جو جمہوریت کی خوبصورتی ہے، تاہم ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ حقائق کو تسلیم کریں جبکہ اس کے باوجود بھی اختلاف رائے رکھا جاسکتا ہے۔
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کوئی بھی بجٹ کو کسی بھی انداز میں پیش کرسکتا ہے، کوئی اسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا کہہ سکتا ہے لیکن ہمارا عزم ہے کہ حقیقت کو سامنے رکھیں اور ہم سب مل کر 5 ہزار 500 ارب روپے ٹیکس کی وصولی کے ہدف کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم لوگوں کے درمیان عزت سے کھڑے ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں ٹیکس وصول کرنا ہوگا، جب بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا ٹیکس وصول کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کرسکتے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قدرتی طور پر کوئی ٹیکس دینا نہیں چاہتا لیکن دنیا بھر میں لوگ ٹیکس دیتے ہیں، ہمیں طے کرنا ہے کہ ہمیں معاشرے میں کن لوگوں کا خیال رکھنا ہے اور اگر ہم فاٹا کے لوگوں کو پیسے دے رہے ہیں تو وہاں جنگ ہوئی ہے اور لوگ پریشانی سے گزرے ہیں۔
ٹیکس آمدن کے ہدف میں فرق سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا کہنا تھا کہ حکومت نے کچھ فیلڈز کی نشاندہی کی ہوئی ہے تاہم 250 ارب روپے کے فرق کو پورا کرلیا جائے گا۔
نئے ٹیکسز لگائے جانے اور ان سے بڑھنے والی ممکنہ مہنگائی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں شبر زیدی نے دعویٰ کیا کہ بجٹ میں سیکٹرز کے اعتبار سے ٹیکسز لگائے گئے ہیں جس میں مہنگائی پر اثر نہیں پڑے گا۔
مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو ایسا لگتا ہے کہ موجود حکومت قرضہ لے رہی ہے اور اس کو اچھے انداز میں استعمال نہیں کر رہی تو اس پر حکومت خوشی سے احتساب کے عمل سے گزرنے کے لیے تیار ہے۔