تحریر : غلام محمد ۔۔۔ ایک اور مرتبہ لیاری گینگ وار کے بدنام زمانہ کردار عزیر بلوچ کی اس کے اصل سرپرست خاص طور پر دو خلیجی عرب ممالک کے شیوخ و شاہ اور انکی وابستگی کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن پاکستان کے محب وطن اور غیرت مند عوام و خواص اچھی طرح جانتے ہیں کہ عزیر بلوچ جب لیاری گینگ وار کا سرغنہ تھا تب اسکی سرپرستی کون کیا کرتا تھا۔ اور جسے نہیں معلوم اسکی معلومات میں اضافے کے لئے یہ تحریر پیش خدمت ہے۔
بلوچ علیحدگی پسند کالعدم مذہبی گروہ کے ساتھ کارروائیاں کرتے ہیں
عزیر بلوچ کی گرفتاری جنوری 2016ء میں ظاہر کی گئی تھی۔ عزیر بلوچ کے جرائم کا تعلق کس سے بنتا ہے اس کے لئے صوبہ بلوچستان کے محکمہ داخلہ کی وہ رپورٹ ہی ناقابل تردید ثبوت ہے جو سال 2012ء میں مرتب کی گئی تھی۔ اس سرکاری رپورٹ میں میں واضح طور پر یہ حقیقت بیان کی گئی تھی کہ بلوچ علیحدگی پسند گروہ کالعدم مذہبی گروہوں کے ساتھ مل کر کارروائیاں کرتے ہیں۔ یہ رپورٹ سال 2007ء سے 15فروری 2012ء تک لسانی، فرقہ وارانہ یا دیگر بنیادوں پر کئے گئے حملوں سے متعلق تھی۔
محکمہ داخلہ بلوچستان کی اس رپورٹ کے چند ماہ بعد کراچی کے علاقے لیاری میں گینگ وار کے بدنام زمانہ کردار عزیر بلوچ کی دستاربندی یوسفی مسجد میں کی گئی جہاں کالعدم سپاہ صحابہ (موجودہ نام ASWJ) کے مولوی تاج محمد حنفی نے اسکو اپنی جماعت کی مخصوص پگ (دستار) باندھی۔ اس موقع پر سپاہ صحابہ کے کارکنوں نے بڑے ”مقدس“ نعرے بھی لگائے جس میں سے ایک نعرہ یہ بھی تھا ”جو محمد کا غلام ہے، ہمارا وہ امام ہے“ (نعوذ باللہ) کہاں عزیر بلوچ اور کہاں مقدس ہستیاں اور کہاں امامت؟! لیکن پاکستانی اچھی طرح جانتے ہیں کہ سپاہ صحابہ کا کام ہی یہی ہے کہ عام مسلمانوں کو مقدس ناموں کے بہانے نفرت و دہشت گردی پر اکسائے جبکہ عزیر بلوچ کی دستاربندی اور اس موقع پر یہ نعرہ بھی اسلام کی توہین پر مبنی تھا۔
تاج حنفی کی جماعت کا سربراہ احمد لدھیانوی ہے اور اس پورے گروہ کو کس ملک کی سرپرستی اور حمایت حاصل ہے، یہ بھی ہر پاکستانی اچھی طرح جانتا ہے۔ جی ہاں سعودی عرب کی بات ہورہی ہے۔ لدھیانوی اور تاج کا نعرہ سعودی وہابیت کا ایجاد کردہ ہے اور انہیں سعودی سرکاری دعوتوں میں مدعو بھی کیا جاتا ہے۔ انکے سعودی دورے بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ ایک ریاستی ادارے نے کراچی کے علاقے منگھوپیر میں کالعدم طالبان اور لیاری گینگ وار کے درمیان اشراک عمل کی رپورٹ بھی متعلقہ اعلیٰ حکام کو بھجوائی تھی۔ یہ بھی سبھی کو معلوم ہے کہ سپاہ صحابہ پورے پاکستان میں طالبان کی سہولت کار تھی اور اس کے بانی حق نواز جھنگوی کے نام پر جو بدنام زمانہ لشکر جھنگوی تیار کی گئی تھی وہ بھی طالبان کے دور حکومت میں افغانستان میں ہی تیار کی گئی تھی اور تب پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف تھے جو یہ کہا کرتے تھے کہ افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کروائی جارہی ہے۔ مذہب یا فرقے کے نام پر جو تکفیری دہشت گردی ہے، اسکا بلوچ علیحدگی پسند یا جرائم پیشہ گروہوں سے یہ تعلق ریاست کی اپنی رپورٹس میں منکشف کیا گیا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ عزیر بلوچ یا اسکا پورا نیٹ ورک اور سپاہ صحابہ کے یہ ملک دشمن دہشت گرد ایک دوسرے کے اتحادی اور مددگار ہیں، اس لئے عزیر بلوچ کا ایران سے تو کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا بلکہ سعودی ریاست سے تعلق ضرور ثابت ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ عزیر بلوچ کی حرام کمائی دبئی اور مسقط کے بینکوں میں جمع کروائی گئی تھی۔
ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ مجسٹریٹ کے سامنے عزیر بلوچ کا جو بیان ذرایع ابلاغ میں نشر کیا جاتا رہا، اس کی قانونی حیثیت بقول نجم سیٹھی کچھ بھی نہیں لیکن اس کے باوجود اگر فرض کرلیں کہ یہ درست کہہ رہا ہے تب بھی ”حقیقت“ اس بیان کے مطابق یہ ہے کہ: عزیر بلوچ کی کسی ایرانی خالہ نے اپنے مرحوم بیٹے کی سند پیدائش میں عزیر کی تصویر لگادی اور جعلسازی کرکے اپنے مرحوم بیٹے کے نئے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ اس طرح بنوائے کہ اس پر تصویر عزیر کی تھی۔ یعنی جعلسازی، یعنی ایرانی حکام کے ساتھ دھوکہ کرکے یہ کام کیا!
اسی طرح روزنامہ جنگ نے جو رپورٹ دی اس میں ایک واقعہ یہ بھی تھا کہ ایران میں چیکنگ کے دوران عزیر بلوچ ایرانی پولیس کو چکمہ دے کر فرار ہوگیا تھا۔ اس پر غور کرلیں کہ اگر عزیر ایرانی ایجنٹ تھا تو ایرانی پولیس کو چکمہ دے کر فرار کیوں ہوگیا تھا؟ یعنی حقیقت یہ تھی کہ عزیر بلوچ پاکستان سے غیر قانونی طور پر ایران میں داخل ہوا تھا۔ اس نے ایرانی قوانین کی خلاف ورزی کی تھی، غیر قانونی سرحد کراسنگ، غیر قانونی قیام اور جعلی شناختی و سفری دستاویزات، یہ سبھی کچھ یہ حقیقت تسلیم کرنے کے لئے کافی ہے کہ وہ ایران کا مجرم تھا۔
ایک کہانی یہ بھی بیان کی گئی کہ 2014ء میں کسی ناصر نامی شخص کے توسط سے عزیر بلوچ کے ایرانی ایجنسی کے کسی فرد سے روابط ہوئے جبکہ اس کہانی میں بھی صاف لکھا ہے کہ یہ ناصر بھی پاکستان کے علاقے مند میں رہائش پذیر ہے۔ تو پھر عزیر بلوچ کا ایران کے کسی بھی سرکاری ادرے یا شخصیت سے کسی بھی نوعیت کا کوئی تعلق ثابت کہاں ہوا؟؟
یہ بھی پڑھیں: دبئی میں ایرانی انٹیلی جنس افسر کو حساس معلومات دیں، عزیربلوچ
اور سب سے زیادہ مضحکہ خیز الزام یہ کہ عزیر بلوچ نے سرکاری راز فاش کردیئے!! اس لابی نے پاکستانیوں کو اس حد تک بے وقوف سمجھ لیا ہے کہ انکے اس جھوٹے پروپیگنڈے پر اعتبار کرلیں گے؟؟! جن کے عقل و ایمان کو ریال یا درہم ناکارہ نہیں کرسکے، انکا سوال یہ ہے کہ عزیر بلوچ جیسے بدنام زمانہ گینگسٹر کے پاس سرکاری یا ریاستی راز آکیسے گئے؟؟ کیا عزیر بلوچ کسی ریاستی ادارے کا ملازم تھا، حساس معلومات تک اس کی دسترس کس نے ممکن بنائی تھی؟؟
اور اگر عزیر بلوچ کے پاس راز تھے تو پوچھا جانا چاہیئے کہ لیاری کے بدنام زمانہ گینگسٹر کو حساس اداروں اور تنصیبات کے راز فراہم کرنے والے کون تھے؟؟ اس بدنام زمانہ کریمنل کی پاکستان کے حساس ریاستی اداروں کے کن افراد سے اتنی اچھی دوستی تھی کہ اس کو یہ راز معلوم ہوگئے؟
یہ الف لیلوی داستان طلسم ہوشربا جو بیان کرکے پاکستانیوں کو بے وقوف بنانے کی سازش ناکام ہوچکی ہے۔ عزیر بلوچ کو تو کراچی کی عدالت نے میٹھا در تھانے میں درج ایک مقدمہ سے بری بھی کردیا ہے، پہلے اس پر یہ الزام تو ثابت ہوجائیں جو کراچی کے بچے بچے کو معلوم ہیں لیکن پولیس کے پاس ٹھوس شواہد ہی نہیں جو عدالت کے سامنے پیش کرسکے۔
عزیر بلوچ تو کراچی میں بعض علاقوں تک محدود بدمعاش تھا، پاکستان میں دہشت گردی کروانے کا الزام تو علیحدگی پسند بلوچ رہنما براہمداغ بگٹی اور حربیار مری پر بھی لگایا گیا، کراچی میں ناامنی کا الزام الطاف حسین اور ان کی ایم کیو ایم پر بھی لگایا گیا، سوال یہ ہے کہ یہ تینوں افراد جنہیں ریاست پاکستان کے طاقتور غدار وطن، راء کا ایجنٹ اور دہشت گرد کہتے ہیں، یہ تینوں کس کی پناہ میں ہیں؟ کہاں رہتے ہیں؟ ساتھ ہی یہ بھی بتادیں کہ علیحدگی پسندوں کو کون کون سے ملک پناہ یا شہریت دے رہے ہیں؟ ماضی میں متحدہ عرب امارات پر بھی بلوچستان کی ناامنی کا الزام لگایا جاتا رہا ہے اور یہ الزام بھی اس وقت کے ایک حساس ادارے کی جانب سے لگایا۔
سوال یہ ہے کہ یہ جو کھلے عام روزانہ برطانیہ، امریکا، سوئٹزر لینڈ میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف زہر افشانی کرتے رہتے ہیں، اس ہر برطانیہ، سوئٹزر لینڈ اور امریکا، ناروے، متحدہ عرب امارات وغیرہ کے بارے میں پاکستانی ذرایع ابلاغ کو کب خبریں فیڈ کی جائیں گی؟ داتا دربار کے گیٹ کے باہر خودکش حملہ کرنے والے کو سعودی عرب میں انتہا پسند بنایا گیا، عزیر بلوچ کے سپاہ صحابہ سے تعلقات تھے، عزیر بلوچ کی دولت دبئی کے بینکوں میں ہے، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی پاکستان دشمنی پر خاموشی کیوں؟!
نوٹ: پاکستان ویوز کا لکھنے والے کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اگر آپ بھی اس بارے میں کچھ لکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس ای میل پر اپنی تحریر ارسال کریں۔
pakistanviews1@gmail.com