بھارت نے مقبوضہ وادی کو کشمیریوں کیلئے دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا دیا۔
تین ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن، کرفیو جاری اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے۔
ہندو انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے اگست میں مسلمان اکثریتی ریاست کشمیر کی جداگانہ حیثیت ختم کرکے انتظامی لحاظ سے اسے 2 اکائیوں میں تقسیم کردیا تھا۔
اس اقدام کے پیشِ نظر کسی بھی متوقع مزاحمت کو شروع ہونے سے پہلے ہی روکنے کے لیے بی جے پی حکومت نے طویل عرصے سے ریاستی جبر کا سامنا کرنے والے کشمیریوں کی زندگیوں کو مزید مشکل کردیا۔
5 اگست کے یکطرفہ اقدام سے پہلے ہی کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی غیر معمولی نقل وحرکت سے مقامی افراد میں اس بات کا خوف پھیل گیا تھا کہ حکومت کوئی انتہائی قدم اٹھانے جارہی ہے لیکن اس سے پہلے ہی بھارت نے کشمیر پر ایسی پابندیاں عائد کیں کہ بہت سے لوگوں کو ریاست کی حیثیت میں تبدیلی کے اقدام کا علم بھی کئی روز بعد ہوا۔
اس روز تمام قیاس آرائیوں نے دم توڑ دیا اور بھارتی حکومت کا واضح اقدام سامنے آگیا جس میں اس نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کیا۔
بھارتی صدر رام ناتھ کووِند نے آئین میں موجود مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بل پر دستخط کیے۔
مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کو 2 حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے وادی جموں و کشمیر کو لداخ سے الگ کرنے کا بھی فیصلہ کیا، لداخ کو وفاق کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا گیا جہاں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی۔
اس اقدام سے قبل مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند رہنماؤں، میر واعظ عمر فاروق اور سید علی گیلانی سمیت دیگر کو ان کے گھروں میں نظر بند کردیا گیا تھا، تاہم کسی بھی ممکنہ مخالفت سے بچنے کے لیے حکام نے بھارت کی حمایت کرنے والے سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو بھی نظر بند کر دیا تھا۔
اس کے علاوہ 5 اگست کی رات سے ہی پوری وادی میں کرفیو اور لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے ساتھ موبائل فون انٹرنیٹ سمیت ہر قسم کا مواصلاتی رابطہ منقطع کردیا گیا تھا، یہ پہلی مرتبہ تھا کہ وادی میں لینڈ لائن موبائل سروس بھی معطل کی گئی۔
عید الاضحیٰ کے موقع پر بھارتی حکومت نے پابندیوں میں نرمی کرنے کا اعلان کیا لیکن اس پر مکمل عملدرآمد نہیں ہوا جس کے نتیجے میں کشمیریوں کی بڑی تعداد قربانی کا فریضہ ادا نہیں کرسکی۔
جس پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) حکام نے ٹوئٹ میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر بھارتی فورسز کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ’مکمل کرفیو‘ کی مذمت کی جس کے باعث مسلمان مذہبی تہوار منانے کے لیے جمع نہیں ہوسکے۔
14 اگست پاکستان نے اپنا 73واں یومِ آزادی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر کا سامنا کرنے والے کشمیریوں کے نام کرتے ہوئے ‘یومِ یکجہتی کشمیر’ کے طور پر منایا۔
15 اگست بھارت کے یومِ آزادی کو پاکستان میں ملک گیر سطح پریومِ سیاہ طور پر منایا گیا جس میں ہر شہر میں بھارتی اقدام کے خلاف اور کشمیر سے یکجہتی کے لیے مظاہرے ہوئے۔16 اگست پاکستان کی درخواست پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اہم اور ہنگامی اجلاس منعقد کیا گیا۔
یہ 50 سال میں پہلا موقع تھا، جب خصوصی طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری تنازع پر غور کے لیے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا تھا، چاہے وہ مشاورتی اجلاس ہی کیوں نہ ہو۔
سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں اراکین نے مقبوضہ جموں اور کشمیر کی موجودہ صورتحال اور وہاں انسانی حقوق کی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کی سربراہ مشیل باشیلے نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکومت کے اقدامات کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارت سے مطالبہ کیا کہ شہریوں کی بنیادی ضروریات تک رسائی کو یقینی بنایا جائے۔
10 ستمبرمقبوضہ کشمیر میں 35 روز سے جاری لاک ڈاؤن کے دوران بھارتی فورسز نے یوم عاشور کے دوران وادی میں نکالے جانے والے جلسوں پر پیلٹ گنز اور شیلنگ کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں متعدد کشمیری عزا دار زخمی ہوگئے۔ برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ سامنے آئی جس میں بتایا گیا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے اب تک 4 ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا، یہ تعداد وادی میں جاری کریک ڈاؤن کی سنگین صورتحال کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے زور دیا کہ دنیا جاننا چاہتی ہے کہ وادی میں کیا ہورہا ہے کیوں کہ اس وقت دنیا صرف قیاس ہی کرسکتی ہے کہ وادی میں کس نوعیت کی انسانی حقوق کی خلاف سنگین ورزیاں جاری ہیں۔
27 ستمبر وزیراعظم عمران خان نے مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی اقدامات کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے عالمی برادری کو بھرپور کردار ادا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر بھارت نے کچھ غلط کیا تو ہم آخر تک لڑیں گے اور اس کے نتائج سوچ سے کہیں زیادہ ہوں گے۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ ‘آپ کیا سمجھتے ہیں 80 لاکھ کو بھول جائے جب 8 ہزار یہودی اس طرح محصور ہوں تو یہودی برادری کیا سوچے گی، یورپی کیا سوچیں گے، اگر کسی برادری کے لوگ اس طرح محصور ہوں تو وہ کیا کریں گے کیا انہیں درد نہیں ہوگا
امریکی اخبار ‘نیو یارک ٹائمز’ کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مقبوضہ جموں اور کشمیر میں مواصلاتی روابط پر پابندی کے باعث تقریباً ایک درجن سے زائد مریض ایمبولینس کو کال نہ کر پانے یا سڑکوں کی بندش کی وجہ سے وقت پر ہسپتال نہیں پہنچ سکے تھے اور انتقال کر گئے۔
موبائل فون سروس کے بغیر ڈاکٹر ایک دوسرے سے رابطہ قائم نہیں کر پاتے، ماہرین کو ڈھونڈ نہیں پاتے یا زندگی اور موت کی صورتحال میں معلومات حاصل کرنے کے لیے مدد حاصل نہیں کر پاتے۔
زیادہ تر کشمیریوں کے گھر میں لینڈ لائن نہ ہونے کی وجہ سے وہ کسی کو بھی مدد کے لیے نہیں پکار سکتے
12 ربیع الاول کے موقع پر بھارتی فورسز نے سری نگر میں حضرت بل اور دیگر مقدس مقامات اور مساجد کی جانب جانے والے راستوں کو بند کیا اور اس مبارک موقع کی مناسبت سے نکلنے والے جلوسوں کو جبری طور پر روکا۔