شہید قاسم سلیمانی نہ صرف ایرانی قوم کے ہیرو ہیں بلکہ فلسطینی مظلوم ملت کے عظیم ہیروہیں ، اسماعیل ہانیہ
شہید قاسم سلیمانی فلسطینی مزاحمت کے قائد اور عوام کے ہیرو
تحریر: صابر ابو مریم
عراق کے دارلحکومت بغداد میں مورخہ تین جنوری کو امریکی افواج کی ایک دہشت گردانہ کاروائی میں شہادت پر فائز ہونے والے مجاہدین اسلام قاسم سلیمانی او ر ابو مہدی مہندس سمیت آٹھ افراد شامل تھے۔ بغداد میں امریکہ کی یہ غیر قانونی اور جارحانہ کاروائی پوری دنیا کے لئے توجہ کا مرکز اس لئے بھی بنی کہ اس حادثہ میں شہید ہونے والے مجاہد اسلام قاسم سلیمانی ایک ایسی غیر معمولی شخصیت ہیں کہ جن کے بارے میں دنیا بھر اور پاکستان کے تجزیہ نگاروں نے بھی رائے دیتے ہوئے یہی کہاہے کہ قاسم سلیمانی کی شخصیت ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے بعد دوسرے بڑی قدرت رکھنے والی شخصیت ہیں۔اس طرح کے متعدد تجزیات ذرائع ابلاغ پر جاری ہیں جبکہ کالم نویسوں نے بھی اپنے قلم کی مدد سے امریکی دہشت گردانہ کاروائی میں شہید ہونے والے قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس کی شہادت کے حوالے سے مختلف سیاسی اور عسکری پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔
گذشتہ تین چار روز سے دنیا بھرک ے ذرائع ابلاغ بالخصوص مغربی دنیا اور عرب دنیا سمیت ایشیائی ممالک کے ذرائع ابلاغ بغداد میں امریکی دہشت گرادنہ کاروائی کے نتیجہ میں شہید ہونیو الے ان رہنماؤں کے بارے میں مسلسل خبریں اور تجزیات پیش کر رہے ہیں کہ جس کے بعد ان شہداء کی زندگانی کے بارے میں مختلف پہلو سامنے آنا شروع ہوئے ہیں۔ہم ا س مقالہ میں کوشش کریں گے کہ شہید قاسم سلیمانی کے حوالے سے سامنے آنے والے چند ایک پہلوؤں پر روشنی ڈالیں۔
اس سے پہلے کہ ہم شہید قاسم سلیمانی سے متعلق بیان کردہ دیگر پہلوؤں کی طرف بات کریں، ایک منفرد اور بنیادی پہلو جو ابھی تک نہ تو مغری ذرائع ابلاغ نے پیش کیا ہے اور نہ ہی عرب دنیا سمیت ایشیائی ممالک کے کسی ذرائع نے بیان کیا ہے۔لیکن یہ پہلو دنیا کے سامنے اس وقت سامنے آیا ہے کہ جب عالم اسلام کے اس عظیم ہیرو شہید قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس سمیت دیگر شہداء کے جنازے بغداد سے کاظمین، کربلا، نجف، اہواز، مشھدسے ہوتا ہوا تہران پہنچا ہے جہاں فلسطینی تحریک مزاحمت کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے خصوصی طور پر اس نماز جنازہ میں شرکت کی اور نماز جنازہ کے لاکھوں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی نہ صرف ایرانی قوم کے ہیرو ہیں بلکہ قاسم سلیمانی فلسطینی مظلوم ملت کے عظیم ہیروہیں اور چونکہ قاسم سلیمانی القدس فورس کے سربراہ ہیں لہذا ہم فلسطینی عوام اور فلسطینی کی مزاحمت کی تحریکیں قاسم سلیمانی کو شہید القدس سمجھتے ہیں اور یقینا شہید قاسم سلیمانی شہید القدس ہیں۔فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی تحریک حماس کے سربراہ نے کہا کہ قاسم سلیمانی کو فلسطین سمیت عالم اسلام میں ہمیشہ مزاحمت اسلامی کا ہیرو ہی سمجھا جائے گا۔حماس کے سربراہ نے کہا کہ قاسم سلیمانی کی پوری زندگی فلسطینیوں کے دفاع اور فلسطین کی غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے شکنجہ سے آزادی کے لئے صرف ہوئی ہے۔لہذا فلسطین کی آزادی کی یہ جد وجہد قاسم سلیمانی کے قائم کردہ مزاحمت کے اصولوں کی روشنی میں جاری رہے گی۔
شہید قاسم سلیمانی کی جد وجہد کو سمجھنے کے لئے ایک نقطہ یا پہلو جو اہم ہے وہ یہ بھی ہے سنہ2011ء میں جب امریکہ کی جانب سے شام میں داعش جیسی سفاک اور دہشت گرد تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تو قاسم سلیمانی نے شام حکومت کی درخواست پر داعش سے نمٹنے کی حکمت عملی بنائی اور بنفس نفیس داعش کے خاتمہ کے لئے محاذ جنگ پر موجود رہے۔اسی طرح جب امریکہ اور اسرائیل سمیت ان کے عرب حواریوں نے سنہ2014ء میں داعش کو عرا ق پر مسلط کرنے اور عراق پر قابض ہونے کے لئے خون ریزی شروع کی تو یہی قاسم سلیمانی ہی تھے جو سب سے پہلے عراق کے دفاع کے لئے عراقی حکومت کی درخواست پر عراق پہنچے اور یہاں بھی داعش کے خاتمہ کے لئے اور عرا ق کے مقدس مقامات کے تحفظ سمیت عرا ق کو داعش کے چنگل سے نجات دلوانے کے لئے سرگرم ہوئے۔ نتیجہ میں شام اور عراق دونوں مقامات پر ہی داعش کو شکست ہوئی اور اس جنگ کا فاتح اگر کوئی تھا تو وہ یہی عالم اسلام اور شعائراللہ کا دفاع کرنے والا مجاہد قاسم سلیمانی تھا۔
شہید قاسم سلیمانی لبنان میں اسرائیل کے حملوں کی ناکامی اور اسرائیلی منصوبوں کی ناکامی کا ایک اہم ستون سمجھے جاتے ہیں۔ جب سنہ2006ء میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تو قاسم سلیمانی لبنان میں حزب اللہ اور لبنانی فوج کے ساتھ مل کر اسرائیل کے حملہ کو پسپا کرنے کے لئے دن رات سرگرم عمل رہے اور اس طرح یہ جنگ بھی 33روز بعد اسرائیل کے شکست پر اختتام پذیر ہوئی۔عالمی ذرائع ابلاغ نے کئی سال بعد اسرائیل کی اس شکست کا ذمہ دار اسی مجاہد اسلام قاسم سلیمانی کو قرار دیا۔
اگر بوسنیا کے ان مسلمانوں کی بات کی جائے جن پر ظلم و ستم روا رکھا گیا تھا تو تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہی شہید قاسم سلیمانی مسلمانوں کے دفاع کے لئے اور ان کی عزت وناموس کی رکھوالی کی خاطر سب سے پہلے بوسنیا میں پہنچے اور دشمن قوتوں کے مقابلہ میں مسلمان ملتوں کا دفاع کیا۔
شہید قاسم سلیمانی کے بارے میں ایک اہم پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ قاسم سلیمانی کشمیر میں مظلوم کشمیریوں کی مزاحمت کے حامی رہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے شہادت پر مقبوضہ کشمیر میں کئی ایک مقامات پر ان کی تصاویر اٹھا کر عوام نے مظاہرے کئے ہیں۔
امریکہ جو کہ اپنی دہشت گردانہ عزائم کی ایک سوسالہ تاریخ سے طویل تاریخ رکھتا ہے ہمیشہ مظلوموں کو دہشت گرد قرار دینا ہی امریکہ کا شیوا رہا ہے۔امریکہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ دنیا میں امریکی منصوبوں کی ناکامی کے پیچھے اگر کسی کا ہاتھ تھا تو وہ یہی مجاہد اسلام قاسم سلیمانی تھے۔آ ج پوری دنیا میں شہید قاسم سلیمانی کے لئے عوام مظاہرے کر رہے ہیں حتیٰ امریکہ میں سیاسی حلقے بھی امریکی صدر کے اس اقدام کو امریکہ کے لئے شدید خطرہ کی گھنٹی قرار دے رہے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ شہید قاسم سلیمانی کو اسماعیل ہانیہ نے فلسطینی قوم اور ملت مظلوم کا ہیرو قرار دیا ہے اور اسلامی مزاحمت کی تحریکوں کا قائد قرار دیتے ہوئے شہید قدس قرار دے کر دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ان کی شخصیت ہمارے درمیان سے چلی گئی ہے لیکن قاسم سلیمانی کی فکر اور سوچ امریکہ اور اسرائیل جیسی شیطانی طاقتیں ختم نہیں کر سکتی ہیں۔اسلامی مزاحمت کی تحریکوں نے شہید قاسم سلیمانی کے خون کا بدلہ لینے کا اعلان کر رکھا ہے اور تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق کہا جا رہا ہے کہ جیسا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ انتقام سخت ہو گا تو اس حوالے سے القدس کی آزادی اور اسرائیل کی نابودی کے امکانات مزید قوی تر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔خدا وند کریم کا وعدہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں وہ شہید ہیں اور زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے ہاں سے رزق پاتے ہیں۔
گذشتہ تین چار روز سے دنیا بھرک ے ذرائع ابلاغ بالخصوص مغربی دنیا اور عرب دنیا سمیت ایشیائی ممالک کے ذرائع ابلاغ بغداد میں امریکی دہشت گرادنہ کاروائی کے نتیجہ میں شہید ہونیو الے ان رہنماؤں کے بارے میں مسلسل خبریں اور تجزیات پیش کر رہے ہیں کہ جس کے بعد ان شہداء کی زندگانی کے بارے میں مختلف پہلو سامنے آنا شروع ہوئے ہیں۔ہم ا س مقالہ میں کوشش کریں گے کہ شہید قاسم سلیمانی کے حوالے سے سامنے آنے والے چند ایک پہلوؤں پر روشنی ڈالیں۔
اس سے پہلے کہ ہم شہید قاسم سلیمانی سے متعلق بیان کردہ دیگر پہلوؤں کی طرف بات کریں، ایک منفرد اور بنیادی پہلو جو ابھی تک نہ تو مغری ذرائع ابلاغ نے پیش کیا ہے اور نہ ہی عرب دنیا سمیت ایشیائی ممالک کے کسی ذرائع نے بیان کیا ہے۔لیکن یہ پہلو دنیا کے سامنے اس وقت سامنے آیا ہے کہ جب عالم اسلام کے اس عظیم ہیرو شہید قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس سمیت دیگر شہداء کے جنازے بغداد سے کاظمین، کربلا، نجف، اہواز، مشھدسے ہوتا ہوا تہران پہنچا ہے جہاں فلسطینی تحریک مزاحمت کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے خصوصی طور پر اس نماز جنازہ میں شرکت کی اور نماز جنازہ کے لاکھوں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی نہ صرف ایرانی قوم کے ہیرو ہیں بلکہ قاسم سلیمانی فلسطینی مظلوم ملت کے عظیم ہیروہیں اور چونکہ قاسم سلیمانی القدس فورس کے سربراہ ہیں لہذا ہم فلسطینی عوام اور فلسطینی کی مزاحمت کی تحریکیں قاسم سلیمانی کو شہید القدس سمجھتے ہیں اور یقینا شہید قاسم سلیمانی شہید القدس ہیں۔فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی تحریک حماس کے سربراہ نے کہا کہ قاسم سلیمانی کو فلسطین سمیت عالم اسلام میں ہمیشہ مزاحمت اسلامی کا ہیرو ہی سمجھا جائے گا۔حماس کے سربراہ نے کہا کہ قاسم سلیمانی کی پوری زندگی فلسطینیوں کے دفاع اور فلسطین کی غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے شکنجہ سے آزادی کے لئے صرف ہوئی ہے۔لہذا فلسطین کی آزادی کی یہ جد وجہد قاسم سلیمانی کے قائم کردہ مزاحمت کے اصولوں کی روشنی میں جاری رہے گی۔
شہید قاسم سلیمانی کی جد وجہد کو سمجھنے کے لئے ایک نقطہ یا پہلو جو اہم ہے وہ یہ بھی ہے سنہ2011ء میں جب امریکہ کی جانب سے شام میں داعش جیسی سفاک اور دہشت گرد تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تو قاسم سلیمانی نے شام حکومت کی درخواست پر داعش سے نمٹنے کی حکمت عملی بنائی اور بنفس نفیس داعش کے خاتمہ کے لئے محاذ جنگ پر موجود رہے۔اسی طرح جب امریکہ اور اسرائیل سمیت ان کے عرب حواریوں نے سنہ2014ء میں داعش کو عرا ق پر مسلط کرنے اور عراق پر قابض ہونے کے لئے خون ریزی شروع کی تو یہی قاسم سلیمانی ہی تھے جو سب سے پہلے عراق کے دفاع کے لئے عراقی حکومت کی درخواست پر عراق پہنچے اور یہاں بھی داعش کے خاتمہ کے لئے اور عرا ق کے مقدس مقامات کے تحفظ سمیت عرا ق کو داعش کے چنگل سے نجات دلوانے کے لئے سرگرم ہوئے۔ نتیجہ میں شام اور عراق دونوں مقامات پر ہی داعش کو شکست ہوئی اور اس جنگ کا فاتح اگر کوئی تھا تو وہ یہی عالم اسلام اور شعائراللہ کا دفاع کرنے والا مجاہد قاسم سلیمانی تھا۔
شہید قاسم سلیمانی لبنان میں اسرائیل کے حملوں کی ناکامی اور اسرائیلی منصوبوں کی ناکامی کا ایک اہم ستون سمجھے جاتے ہیں۔ جب سنہ2006ء میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تو قاسم سلیمانی لبنان میں حزب اللہ اور لبنانی فوج کے ساتھ مل کر اسرائیل کے حملہ کو پسپا کرنے کے لئے دن رات سرگرم عمل رہے اور اس طرح یہ جنگ بھی 33روز بعد اسرائیل کے شکست پر اختتام پذیر ہوئی۔عالمی ذرائع ابلاغ نے کئی سال بعد اسرائیل کی اس شکست کا ذمہ دار اسی مجاہد اسلام قاسم سلیمانی کو قرار دیا۔
اگر بوسنیا کے ان مسلمانوں کی بات کی جائے جن پر ظلم و ستم روا رکھا گیا تھا تو تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہی شہید قاسم سلیمانی مسلمانوں کے دفاع کے لئے اور ان کی عزت وناموس کی رکھوالی کی خاطر سب سے پہلے بوسنیا میں پہنچے اور دشمن قوتوں کے مقابلہ میں مسلمان ملتوں کا دفاع کیا۔
شہید قاسم سلیمانی کے بارے میں ایک اہم پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ قاسم سلیمانی کشمیر میں مظلوم کشمیریوں کی مزاحمت کے حامی رہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے شہادت پر مقبوضہ کشمیر میں کئی ایک مقامات پر ان کی تصاویر اٹھا کر عوام نے مظاہرے کئے ہیں۔
امریکہ جو کہ اپنی دہشت گردانہ عزائم کی ایک سوسالہ تاریخ سے طویل تاریخ رکھتا ہے ہمیشہ مظلوموں کو دہشت گرد قرار دینا ہی امریکہ کا شیوا رہا ہے۔امریکہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ دنیا میں امریکی منصوبوں کی ناکامی کے پیچھے اگر کسی کا ہاتھ تھا تو وہ یہی مجاہد اسلام قاسم سلیمانی تھے۔آ ج پوری دنیا میں شہید قاسم سلیمانی کے لئے عوام مظاہرے کر رہے ہیں حتیٰ امریکہ میں سیاسی حلقے بھی امریکی صدر کے اس اقدام کو امریکہ کے لئے شدید خطرہ کی گھنٹی قرار دے رہے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ شہید قاسم سلیمانی کو اسماعیل ہانیہ نے فلسطینی قوم اور ملت مظلوم کا ہیرو قرار دیا ہے اور اسلامی مزاحمت کی تحریکوں کا قائد قرار دیتے ہوئے شہید قدس قرار دے کر دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ان کی شخصیت ہمارے درمیان سے چلی گئی ہے لیکن قاسم سلیمانی کی فکر اور سوچ امریکہ اور اسرائیل جیسی شیطانی طاقتیں ختم نہیں کر سکتی ہیں۔اسلامی مزاحمت کی تحریکوں نے شہید قاسم سلیمانی کے خون کا بدلہ لینے کا اعلان کر رکھا ہے اور تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق کہا جا رہا ہے کہ جیسا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ انتقام سخت ہو گا تو اس حوالے سے القدس کی آزادی اور اسرائیل کی نابودی کے امکانات مزید قوی تر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔خدا وند کریم کا وعدہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں وہ شہید ہیں اور زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے ہاں سے رزق پاتے ہیں۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔