سائنسدان یہ پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جان لیوا کورونا وائرس کیسے شروع ہوا؟
سائنسدان اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آخر یہ وبا کہاں سے پھیلنی شروع ہوئی۔
اور پتہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے مہلک کورونا وائرس جانوروں سےانسانوں میں کیسے پہنچا۔
چین کے کسی علاقے میں ہوا میں اڑتی ایک چمگادڑ نے اپنی لید میں کورونا وائرس چھوڑا یہ وائرس جنگل کی زمین پر گرا جہاں پینگولین نام کے جانور کو اس فضلے سے یہ وائرس ملا۔ یہ وائرس دوسرے جانوروں میں پھیلا۔ یہ متاثرہ جانور انسانوں کے ہاتھ لگا اور یہ بیماری انسانوں میں پھیلنی شروع ہوئی اور دنیا میں وبا کی شکل اختیار کرنے لگی۔
زولوجیکل سوسائٹی آف لندن کے پروفیسر اینڈریو کنگھم کا کہنا ہے کہ سائنسدان کسی جاسوسی کی طرح ان واقعات کی کڑی جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگل میں کئی طرح کے جانوروں میں یہ وائرس ہو سکتا ہے خاص طور پر چمگادڑیں جن میں کئی طرح کے کرونا وائرس پائے جاتے ہیں۔
جب سائنسدانوں نے ایک مریض کے جسم سے لیے جانے والے وائرس کا جائزہ لیا تو سیدھا اشارہ چمگادڑوں کی جانب کیا گیا۔ چمگادڑیں لمبی پرواز کرتی ہیں اور ہر براعظم میں موجود ہوتی ہیں یہ خود تو زیادہ بیمار نہیں ہوتیں لیکن دور تک اور بڑے پیمانے پر وائرس پھیلانے میں ماہر ہیں۔
یونیورسٹی کالج آف لندن کی پروفیسر کیٹ جونز کے مطابق ایسی شہادتیں موجود ہیں کہ چمگادڑیں طویل اور تھکا دینے والی اڑان کی عادی ہو چکی ہیں اور ڈی این اے کو پہنچنے والے نقصان کو خو بخود ٹھیک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ہو سکتا ہے کہ اسی وجہ سے وہ اپنے جسم میں موجود کئی طرح کے وائرس کا بوجھ برداشت کر لیتی ہیں لیکن ابھی تک یہ ایک خیال ہے۔
یونیورسٹی آف نوٹنگھم کے پروفیسر جوناتھن بال کا کہنا ہے کہ چمگادڑوں کے طرز زندگی کو دیکھا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں وائرس پنپتے ہیں اور چونکہ وہ دودھ پلانے والے جانور ہیں اس لیے وہ براہِ راست یا بلواسطہ طور پر یہ وائرس انسانوں میں بھی منتقل کر سکتے ہیں۔
اس معمے کا دوسرا سوال اس پراسرار جانور کی شناخت ہے جس کے جسم میں یہ وائرس آیا اور اس سے ووہان کی بازار میں پہنچا۔ اس سلسلے میں پینگولین نام کے جانور پر شبہہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ چیونٹیوں اور دیگر کیڑے مکوڑوں کو کھانے والا یہ جانور دنیا میں سب سے زیادہ سمگل ہونے والا جانور کہا جاتا ہے اور معدومیت کا شکار ہے۔
چین کی روایتی ادویات میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے اور کچھ لوگ اسے نفیس خوراک کے طور پر دیکھتے ہیں۔تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی طرح کے نتیجے پر نہ پہنچا جائے کیونکہ پینگولین سے متعلق جائزے کی مکمل تفصیل ابھی جاری نہیں کی گئی ہے جس سے تمام اطلاعات کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔
پینگولین اور دیگر جنگلی حیات جن میں کئی طرح کی چمگادڑیں بھی شامل ہیں اکثر گیلے بازاروں میں فروخت کی جاتی ہیں ( ایسے بازار جہاں زندہ جانوروں کو پانی میں رکھا جاتا ہے) جس سے ایک سے دوسرے جانور میں وائرس پھیلنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ تو ایسے بازاروں میں ہی جانوروں اور انسانوں میں وائرس پھیلنے کے امکانات زیادہ ہیں۔
ووہان میں ایسے ہی ایک بازار کو وبا پھیلنے کے بعد بند کر دیا گیا جس میں جنگلی جانوروں کا ایک سیکشن بھی تھا جہاں زندہ اور ذبح شدہ جانوروں کو فروخت کیا جا رہا تھا۔ ان میں اونٹ، ریچھ اور دیگر جانوروں کے اعضا فروخت ہو رہے تھے۔روز نامہ گارڈین کے مطابق ایک دوکان پر فرخت ہونے والی فہرست میں بھیڑیے کے بچے، سنہری ٹڈے، بچھو، چوہے، گلہری، لومڑی، سیہہ، بجو، کچھوا اور مگر مچھ کا گوشت شامل تھا۔
جہاں تک ہمیں معلوم ہے چمگادڑیں اور پینگولین اس فہرست میں شامل نہیں تھے۔ چینی حکام کو اس بات کی اطلاع ہوگی کہ وہاں کیا کچھ فروخت ہو رہا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں ہمیں جن وائرسز کا پتہ چلا ہے وہ سب جنگلی حیات سے انسانوں میں منتقل ہوئے تھے چاہے وہ ایبولا ہو یا یا سارس اور اب کورونا وائرس۔
پروفیسر جونز کا کہنا ہے کہ جنگلی حیات سے متعدی امراض پھیلنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا اور انسانی آبادی نئے نئے وائرس کی زد میں آ رہی ہے۔ انسان جنگلات پر قبضہ کر رہا ہے جنگلات کی زمین استعمال کی جا رہی ہے جو جنگلی حیات سے منتقل ہونے والے وائرس پھیلنے کی وجہ ہو سکتی ہے۔
پروفیسر کنگھم کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہے کہ اس کے خطرات کیا ہیں تو ہم پہلے سے ہی اقدامات کر سکتے ہیں۔ حالانکہ چمگادڑوں میں زیادہ وائرس پائے جاتے ہیں لیکن ماحولیاتی نظام کو چلانے میں ان کی ضرورت بھی اہم ہے۔
حشرات خور چمگادڑیں بڑے پیمانے پر کیڑے مکوڑے کھاتی ہیں جن میں کاشت کو برباد کرنے والے کیڑے اور مچھر شامل ہیں۔2003 اور تین میں سارس کی وبا پھیلنے کے بعد جانوروں کے بازار پر عارضی پابندی لگا دی گئی تھی۔ لیکن جلدی ہی یہ بازار چین، ویتنام اور جنوب مشرقی ایشا کے دیگر علاقوں میں پوری طرح کام کرنے لگے۔
ایسٹ اینگلیا یونیورسٹی کی پرفیسر ڈیانا بیل کا کہنا ہے کہ شاید ہمیں یہ کبھی معلوم نہ ہو سکے کہ انسانوں کی جان لینے والی یہ بیماری کب کہاں اور کیسے وجود میں آئی لیکن ہم ‘اگلے طوفان ‘ کو آنے سے روک سکتے ہیں۔ ہم مختلف ممالک کے مختلف علاقوں اور مختلف طرز زندگی، مختلف ماحول کے جانوروں کو جن میں کچھ درختوں پر رہتے ہیں تو کچھ زمین پر اور کچھ پانی میں انہیں ایک ساتھ جمع کر رہے ہیں جو خطرناک ہے اور ہمیں اسے روکنا چاہیے۔
چین نے جنگلی حیات سے بننے والی اشیا کی خرید وفروخت پرمستقل پابندی لگا دی