ووہان: کورونا وائرس کووڈ۔19 کے خلاف 23 جنوری سے 8 اپریل تک 76 روزہ ’’ جنگ‘‘ میں ووہان بالآخر سرخرو ہوا
کورونا وائرس کا ابتدائی مرکز قرار دیا جانے والا شہر ووہان ایک طویل صبرآزما جدوجہد کے بعد فاتح کا درجہ پانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔
ووہان میں لاک ڈاؤن کے خاتمے نے دنیا بھر میں بھی امید دلائی ہے جو اس وقت کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کا شکار ہیں
چینی حکومت نے جب ووہان کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تو مختلف حلقوں کی جانب سے اس فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اسے جدید تاریخ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا گیا، لیکن بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ محدود طبی وسائل اور ویکسین کی عدم دستیابی کے باعث لاک ڈاؤن ہی واحد درست انتخاب تھا، جس پر دنیا آج عمل پیرا ہے۔
ووہان کی بات کی جائے تو ایک ایسے وقت میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا جب شہر میں مریضوں کی تعداد میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہورہا تھا، اسپتالوں کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا، طبی عملے کی تعداد بھی انتہائی محدود تھی، ٹیسٹنگ کٹس باآسانی دستیاب نہیں تھیں اور سب سے بڑھ کر ووہان کی ایک کروڑ دس لاکھ آبادی کو کیسے سہولیات فراہم کی جائیں؟ شہر میں اقتصادی سرگرمیوں کی بندش سے ہونے والے نقصانات اپنی جگہ لیکن عوام کے آزادانہ طرز زندگی کو آئیسولیٹ کرنا یقیناً کسی چیلنج سے کم نہیں تھا۔
لیکن ووہان نے بھاری معاشی قیمت بھی برداشت کرلی، عوام نے اپنی انفرادی آزادی کی قربانی بھی دے دی کیونکہ واحد مقصد ناول کورونا وائرس سے خود کو، اپنے ملک کو اور دیگر ممالک کے عوام کو بچانا تھا، جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ٹھہرے۔ کیونکہ اگر اُس وقت ووہان پر سفری پابندیاں عائد نہ کی جاتیں تو وائرس انتہائی تیز رفتاری سے دنیا بھر میں پھیل جاتا اور صورتحال آج کی نسبت کئی گنا مزید سنگین ہوتی۔
ووہان کے کامیاب ماڈل میں مرکزی اور صوبائی حکومت کے درمیان اعتماد سازی اور رابطہ سازی کی مضبوطی بھی اہم عنصر رہا۔