نیب افسران کی نااہلی کی وجہ سےلوگ جیلوں میں سڑرہےہیں
مارشل لاسےبہترہےدوبارہ انگریزوں کوحکومت دےدی جائے
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس میں کہا کہ بار بار مواقع دیے مگر نیب کے غیر قانونی کام جاری ہیں، نیب افسران کی نااہلی کی وجہ سے لوگ جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔
سپریم کورٹ میں نیب افسران کے نام پر پیسے لینے والے ملزم محمد ندیم کی ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی، اس موقع پر تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزم نے عرفان منگی سمیت مختلف افسران کو اہم شخصیات بن کر کالیں کیں، ملزم کے خلاف نیب کی جانب سے مقدمہ درج کروایا گیا جب کہ فرانزک کی ابھی تک رپورٹ نہیں آئی۔
ملزم کے وکیل ظفر وڑائچ نے کہا کہ ملزم کے خلاف بلاوجہ مقدمات بنائے جا رہے ہیں، کسی متاثر کا بیان ریکارڈ تک نہیں کیا گیا، ملزم کے خلاف پہلے نیب ریفرنس بھی بنایا گیا پھر ایف آئی آر درج کروائی گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ محمد ندیم مڈل پاس ہے بہاولپور سے وہ کیسے نیب افسر بن کر کال کرتا تھا، ملزم نے ایم ڈی پی ایس او کو ڈی جی نیب بن کر کال کی، تفتیش کے مطابق مڈل پاس ملزم کے پاس صرف ایک بھینس ہے، ملزم کے پاس بڑے بڑے افسران کے موبائل نمبرز کیسے آگئے۔
نیب پراسیکوٹر نے کہا کہ ایم ڈی پی ایس او سمیت 22 افراد کی مختلف شکایات ملیں، ایم ڈی پی ایس او نے ڈی جی نیب عرفان منگی سے رابطہ کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ عرفان منگی صاحب آپ کی تعلیم اور تنخواہ کیا ہے جس پر عرفان منگی نے کہا کہ میں انجینئر ہوں اور میری تنخواہ 4 لاکھ 20 ہزار روپے ہے، جسٹس فائز نے استفسار کیا کہ آپ فوجداری معاملات کا تجربہ رکھتے ہیں، ایک انجینئر نیب کے اتنے بڑے عہدے پر کیسے بیٹھا ہوا ہے اور نیب کیسے کام کررہا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ چیئرمین نیب کس قانون کےتحت بھرتیاں کرتے ہیں، چیئرمین نیب اب جج نہیں انھیں ہم عدالت بلا سکتے ہیں جب کہ عرفان منگی کس کی سفارش پر نیب میں گھس آئے، مارشل لا میں قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، ہمیں اللہ سے زیادہ ایک ڈکٹیٹر کا خوف ہوتا ہے، مارشل لا سے بہتر ہے دوبارہ انگریزوں کو حکومت دے دی جائے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس میں کہا کہ نیب عوام کے پیسے سے چلتا ہے عوام کے نوکر ہیں سب، ملک کو 2 حصوں میں تقسیم کر دیا گیا، ہر بندہ کرسی پر بیٹھ کر اپنا ایجنڈا چلا رہا ہے، نیب جس معاملے میں چاہتا ہے گھس جاتا ہے، نیب والے عوام کے ملازم ہیں، بار بار مواقع دیے مگر نیب کے غیر قانونی کام جاری ہیں، نیب افسران کی نااہلی کی وجہ سے لوگ جیلوں میں سڑ رہے ہیں، لوگوں کو ڈرانے کے لیے نیب کا نام ہی کافی ہے۔
پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو بتایا کہ ہم اپنا کام قانون کے مطابق کرتے ہیں جس پر جسٹس قاضی قاضی فائز عیسی نے کہا کہ لگتا ہے ہمیں نیب کے لیے قانون کی کلاسز لگانا پڑیں گی، نیب کے 1999 سے اب تک کوئی رولز اینڈ ریگولیشنز بنائے ہی نہیں گئے، قواعد نہ بنانے پر نیب کے اپنے خلاف ریفرنس بنتا ہے۔
جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ ہم سب ریاست کے ملازم ہیں، ہم سب نے مل کر قانون کی عملداری میں حائل قوتوں کا مقابلہ کرنا ہے جب کہ قانون کا وقار بحال کیے بغیر قانون کی عملداری قائم نہیں ہو سکتی۔
عدالت نے اٹارنی جنرل پاکستان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے نیب کے تمام ڈی جیز کی تقرریوں سے متعلق تفصیلات طلب کرلی، سپریم کورٹ نے چئیرمین نیب کے افسران بھرتی کرنے کے اختیارات کا بھی نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نیب آئین اور قانون کو بائی پاس کر کے کیسے بھرتیاں کر سکتے ہیں، نیب کا سیکشن 28 آئین کے آرٹیکل 240 سے متصادم ہے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے ملزم محمد ندیم کی ضمانت منظور کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔