نام نہاد امن منصوبہ فلسطین کی تاریخ کو مسخ کرنے کے ساتھ فلسطین کے وجود کو نابود کرنے کا منصوبہ ہے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابومریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
مسئلہ فلسطین سے متعلق تاریخ ویسے تو بہت طویل ہے لیکن ہم اگر اس تاریخ کو اعلان بالفوریعنی سنہ1917ء سے ہی مطالعہ کریں تو ہمیں ملتا ہے کہ فلسطین اور یہاں کی اقوام گذشتہ ایک سو سال سے اپنی آزادی کے لئے اور اپنے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے کے لئے جد وجہد کر رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو دور حاضر کی ایک طویل جدوجہد کی تاریخ ہمیں فلسطین سے ملتی ہے۔
گذشتہ دو برس سے امریکی حکومت نے ایک منصوبہ متعارف کروایا ہے جسے اب حرف عام میں ’صدی کی ڈیل‘ کہا جاتا ہے۔اس منصوبہ کو بظاہر امریکہ نے امن منصوبہ کا نام دیا ہے لیکن اس کی حقیقت اور گہرائی یہ بتاتی ہے کہ یہ نام نہاد امن منصوبہ در اصل فلسطین کی تاریخ کو مسخ کرنے کے ساتھ فلسطین کے وجود کو ہی نابود کرنے کا منصوبہ ہے۔
تحقیقی انداز میں اگر ان تمام مسائل کو جوڑ کر گفتگو کی جائے تو ہمیں شواہد ملتے ہیں کہ فلسطین کو تاریخ کے اوراق سے مٹانے کے لئے امریکی سرپرستی میں صہیونیوں کی جانب سے کئی ایک مرتبہ دوسرے ممالک پر جنگیں مسلط کی گئی ہیں، غزہ پر بھی جنگیں مسلط ہوتی رہی ہیں، اسی طرح فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل مزاحمتی گروہوں حماس، حزب اللہ، جہاد اسلامی، پاپولر فرنٹ اور دیگر کے خلاف امریکی و اسرائیلی کاروائیاں سامنے آتی رہی ہیں، یہاں تک کہ سنہ2020ء کے آغاز میں القدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کامعاملہ بھی امریکی حکومت کے منہ پر ایک سیاہ کلنک کی مانند موجود ہے۔غرض یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے تمام اتحادی خوا ہ وہ صہیونیوں کی جعلی حکومت اسرائیل ہو یا پھر غرب ایشیائی خطے میں موجود عرب اسلامی ممالک کی حکومتیں اور مطلق العنان بادشاہتیں ہوں۔سب کے سب باہم ایک نقطہ پر متحد نظر آتے ہیں اور وہ نقطہ خطے میں صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا تحفظ ہے تا کہ عالمی سامراج کی مسلم دنیا میں اجارہ داری قائم رہے۔انہی مذموم مقاصد کے حصول کے لئے جہاں گذشتہ بیس برس میں لبنان، افغانستان، عراق، لیبیا، یمن، غزہ اور دیگر مقامات پر جنگیں مسلط ہوئی ہیں اور امریکی افواج داخل ہوتی رہی ہیں وہاں ساتھ ساتھ گذشتہ سات برس انتہائی خطر ناک اور اہمیت کے حامل ہیں کہ جب امریکی سامراج نے شترنج کے تمام مہروں کی ناکامی کے بعد سنہ2011ء کے بعد شام میں ایک نئے اندازسے جنگ کا میدان گرم کرنے کی کوشش کی۔ جی ہاں یہاں پر مراد خبیث زمانہ دہشت گرد گروہ داعش سے ہے کہ جس کو امریکہ و اسرائیل سمیت مغربی و یورپی ممالک کی حمایت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی اتحادی عرب ممالک کی بادشاہتوں کی بھی پشت پناہی اور بھرپور تعاون حاصل رہا ہے۔اس سب کا مقصد صرف اور صرف خطے کو توڑ کر اسرائیل کے لئے راہ ہموار کرنا تھا تا کہ امریکہ اپنی ناجائز اولاد اسرائیل کے ذریعہ غرب ایشیاء میں گریٹر اسرائیل کی تشکیل یا پھر امریکی زبان میں نیو ورلڈ آرڈر یا نیو مڈل ایسٹ کی تکمیل کو یقینی بنا سکے۔
یہاں پر ان گذشتہ بیس سالوں میں ہونے والے ان تمام حالات اور واقعات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ہمیں وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتاہے کہ ان تمام تر حالات میں اگر سب سے سے زیادہ کسی کو نقصان پہنچا ہے تو وہ فلسطینی ہیں اور فلسطین کی تحریک آزادی ہے کہ جسے روکنے اور ختم کرنے کے لئے مذکورہ بالا حالات کو پیدا کیا گیا۔بہر حال اب دور حاضر میں امریکہ اور اس کے عربی اور غربی اتحادیوں کی ناکامی کے بعد صدی کی ڈیل نامی ایک نام نہاد امن منصوبہ لایا گیا ہے اور اس منصوبہ کا ہدف بھی گذشتہ بیس سال میں لا حاصل مقصد کی طرح ہی ہے۔یعنی فلسطین کی نابودی۔
امریکہ اور اس کے عربی و غربی اتحادی اپنے اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے عرب مسلم ممالک کو اسرائیل کے قریب لا رہے ہیں۔اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا رہے ہیں۔متحدہ عرب امارات، بحرین اور اب سوڈان جیسے ملکوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اعلانات کئے ہیں۔یہ سب اعلان سب سے پہلے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے میڈیا پر کئے گئے بعد ازاں یہ ان حکومتوں کی جانب سے سامنے آئے۔یعنی اس سارے معاملہ میں دلال امریکہ ہی ہے۔
یہاں پر ایک سوال یہ پیدا ہو رہاہے کہ کیا ان تمام عرب مسلمان حکومتوں کی جانب سے اسرائیل کوتسلیم کئے جانا واقعی ان کی عوام کی امنگوں کی ترجمان بھی ہے؟ کیا واقعی عرب امارات اور بحرین سمیت سوڈان کے عوام یہی چاہتے ہیں جو کچھ ان حکومتوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر کے انجام دیا ہے؟ یقینا اگر عوام کی رائے کا جائزہ لیا جائے تو ان تمام ممالک کے عوام فلسطین کے حق میں ہیں اور اسرائیل کو غاصب صہیونیوں کی ناجائز ریاست تصور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوڈان اور بحرین میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا ہے کہ جس میں عوام نے حکومت کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے اقدامات پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔
بہر حال عوام احتجاج کریں گے۔ یہ عوام کا حق ہے۔یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکی منصوبہ کامیاب ہو جائے گا؟ کیا واقعی جس طرح امریکہ نے فلسطین کے معاملہ کو نابود کرنے اور فلسطین کو ختم کرنے کے لئے مذموم منصوبہ شروع کیا ہے یہ اسی طرح سے کامیاب ہو پائے گا؟واضح رہے کہ ا س منصوبہ میں امریکی حکومت نے فلسطینیوں کے لئے اربوں ڈالرز کی پیشکش بھی رکھی ہے جسے پہلے ہی فلسطینی دھڑوں نے ٹھکرا دیا ہے۔
اب ان تمام سوالوں کا جواب لینے کے لئے ہمیں فلسطین کے ان مظلوم لوگوں کی رائے بھی لینا ہو گی کہ جو گذشتہ ایک سو سال سے اپنے حق کی خاطر جد وجہد کر رہے ہیں اور اس جدوجہد میں انہوں نے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔قربانیاں دی ہیں۔گھروں سے بے گھر ہوئے ہیں۔پابند سلاسل ہوئے ہیں۔ دنیاکے بد ترین مظالم کا ڈٹ کا مقابلہ کیا ہے۔لیکن ایک بات پر وہ آج بھی تیار نہیں ہیں کہ فلسطین کو اپنے ہاتھ سے اسرائیل کے لئے دے دیں یا امریکہ کے ا س نام نہاد منصوبہ کے تحت اسرائیل کو تسلیم کر لیں اور فلسطین ختم کر دیں۔یہی مذکورہ بالا عنوان کا جواب ہے کہ کیا فلسطین ختم ہونے والا ہے؟ جی نہیں ہر گز نہیں۔ یہاں پر سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ اگر عرب مسلم دنیا سمیت دنیا کی دیگر ریاستیں بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو کیا تاریخ سے اسرائیل کو ناجائز ریاست ختم کیا جا سکتا ہے؟ کیا حقیقت اس کے بر عکس ہو سکتی ہے کہ فلسطین پر اسرائیل نے ناجائز ریاست قائم نہیں کی؟۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر عرب دنیا کے حکمران اسرائیل کو تسلیم کرلیں اور پوری دنیا بھی اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہو جائے تو پھر بھی قانونی اور اخلاقی طور پر یہ بات ضرور دیکھنا ہو گی کہ فلسطین کس کے ساتھ کھڑ اہوا ہے؟ یہ وہ سوال ہے کہ جس نے ثابت کیا ہے کہ دنیا اسرائیل کوتسلیم کر لے تو کرے لیکن اگر فلسطین نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے اور ایک بھی فلسطینی فلسطین میں اپنی شناخت کے ساتھ باقی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ فلسطین باقی ہے اور امریکہ کے عربی اور غربی اتحاد ی ناکام ہیں۔اسرائیل کیونکہ ایک ناجائز اور غاصب ریاست ہے اور فلسطین کے مسئلہ کا منصفانہ حل یہی ہے کہ فلسطین جو کہ فلسطینیوں کا ہے وہ فلسطینیوں کو ہی دیا جائے اور ناجائز و غاصب ریاست کو نابود ہونا ہوگا۔اور یہی امر الہی ہے اور عنقریب تمام شیطانی منصوبوں کی ناکامی کا خاتمہ اسرائیل کی ناجائز ریاست کی نابودی کی صورت میں دنیا دیکھے گی۔