سوڈان میں اسرائیل کے مذموم عزائم کیا ہو سکتے ہیں اور کیا ہیں؟
گزشتہ چند ماہ میں متحدہ عرب امارات اور بحرین نے صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو تسلیم
کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ وفود کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی اعلانیہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تحریر ڈاکٹر صابر ابو مریم
دونوں عرب خلیجی ممالک کے بعد تیسرا ملک سوڈان ہے کہ جس نے صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو تسلیم کیا ہےاور اعلانیہ طور پر تعلقات قائم کر لئے ہیں۔
دنیا بھر میں دہشت گردی کے موجد امریکہ کی سربراہی میں عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل
کو تسلیم کرنے اور تعلقات کے آغاز کے پس پردہ عزائم اور مذموم مقاصد پہلے ہی کالمز میں بیان کئے گئے ہیں۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مقاصد
آج ہم اس مقالہ میں اس بات کو زیر بحث لائیں گے کہ سوڈان صہیونیوں اور ان کی جعلی ریاست اسرائیل
کے لئے کیوں اہمیت کا حامل ہے؟
سوڈان میں اسرائیل کیا چاہتا ہے؟
سوڈان میں اسرائیل کے مذموم عزائم کیا ہو سکتے ہیں اور کیا ہیں؟
عرب امارات اور بحرین کی طرح سوڈان کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے اعلان نے یقینی طور پر فلسطینی عوام اور تحریک آزادی فلسطین کو دھچکا تو پہنچایا ہے لیکن اس تمام صورت حال میں فلسطین کے عوام پھر بھی مستعد ہیں اور غاصب صہیونیوں کی سازشو ں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
بہرحال سوڈان کے اس اقدام نے سوڈانی قوم کے جذبات بھی مجروح کئے ہیں۔ سوڈانی عوام میں شدید غم وغصہ پایا جا رہا ہے پوری مسلم امہ میں اضطراب پایا جاتا ہے۔
سوڈان کے اس فیصلہ سے سوڈانی قوم کے ساتھ ساتھ خطے کی دیگر افریقی اقوام میں بھی شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
ہم اس مقالہ میں افریقی اقوام کی پریشانی اور سوڈانی قوم کے غم و غصہ کی وجوہات کو جاننے کے لئے ان موارد پر گفتگو کریں گے جس کا تعلق سوڈان میں اسرائیلی مفادات کے ساتھ ہے۔
ان مفادات کے بدلے میں افریقی اقوام کی سیکیورٹی اور عزت دائو پر لگائی جا چکی ہے۔
خود صہیونیوں کے اداروں میں نشر ہونے والی تحریروں اور مقالہ جات میں بھی اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ سوڈان کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کا فائدہ صرف اور صرف اسرائیل کو پہنچے گا۔
ان فوائد میں سب سے بڑا فائدہ افریقی ممالک میں اسرائیل کی رسائی آسان تر ہونے کے باعث سیکیورٹی مفادات کو فائدہ پہنچے گا۔
سوڈان چونکہ بحیرہ روم کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے خطے میں تزویراتی حیثیت رکھتا ہے۔
سمندر سے شمال سے جنوب کی جانب انسانی اسمگلنگ، اشیا کی اسمگلنگ اور اسلحہ کی اسمگلنگ اور تجارت کی جاتی ہے۔
اسی حیثیت کا فائدہ اسرائیل اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کی خاطر اٹھانا چاہتا ہے۔
یہاں سے اسرائیل بحیرہ احمر میں بھی کاروائیاں کر سکتا ہے اسرائیل جہاں افریقی ممالک کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے گا وہاں ساتھ ساتھ مصر اور غزہ کی پٹی کو جانے والی انسانی امداد کے ساتھ ساتھ فلسطینی تحریکی آزادی کی مسلح مدد کو بھی روکنے کی پوزیشن میں آ سکتا ہے۔
سوڈان کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات میں سب سے بڑا فائدہ اسرائیل کو یہ پہنچے گا کہ وہ افریقی ممالک میں مختلف مقاصد کی آڑ میں اسرائیلی اسلحہ کو براہ راست پہنچائے گا۔
ترکی اور ایران جیسے ممالک کے خلاف بھی سرگرمیاں اسی پوائنٹ سے انجام دی جا سکتی ہیں۔
اسرائیل اس خطے میں قدم گاڑھنے کے بعد سیاہ فام یہودیوں کی روک تھام کو بھی یقینی بنائے گا جو کہ تارکین وطن کی حیثیت سے مقبوضہ فلسطین جانے کے لئے اسی سمندری راستہ کواختیار کرتے ہیں۔
اس نقطہ سے ایک اور بات جو اسرائیل کی نسل پرستانہ سوچ کو آشکار کرتی ہے وہ یہی ہے کہ کہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل ایک نسل پرست اور ناجائز ریاست ہے۔
اسرائیل کو سوڈان کے ساتھ تعلقات کے قیام کے بعد ایتھوپیا، جنوبی افریقا اور لاطینی امریکا تک فضائی سفر بھی کم ہوجائے گا۔
حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے کہا تھا کہ وہ عن قریب سوڈان کے ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد سے ملنے والے ہیں۔
اس وفد کے ساتھ وہ تجارت، سیاحت، زراعت اور دیگر شعبوں میں تعاون کے دروازے کھولنے پر بات کریں گے۔
عبرانی اخبا رمعاریو کے مشرقی امور کے تجزیہ نگار جیکی کھوبی نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ سوڈان کی بنیادوں میں اسرائیل سے دشمنی ہے مگر تل ابیب اور خرطوم کے ساتھ تعلقات کے قیام کے بعد دشمنی رفتہ رفتہ دوستی میں بدلے گی۔
ان کا کہنا ہے سوڈان کے ساتھ تعلقات کے قیام کے نتیجے میں اسرائیل کو بحیرہ روم کے اطراف میں آباد ممالک تک رسائی اوربحیرہ روم کے پانیوں میں قدم جمانے کا موقع ملے گا۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایک طرف اسرائیل نے عرب ممالک کے چند حکمرانوں کے ساتھ ساز باز کے ذریعہ عرب زمینوں پر اپنے ناپاک قدم گاڑھ دئیے ہیں تو دوسری جانب افریقی ممالک میں سے چند ایک کی غداری کے باعث پورے افریقہ کے اقوام کی سیکیورٹی اور مفادات کو دائو پر لگا دیا گیا ہے۔
افریقی امور اور عرب امور کے ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ عرب دنیا اور افریقی دنیا کے ممالک کو تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔
اسرائیل جو کہ ایک غاصب اور ناجائز ریاست ہے ہمیشہ سے خطے میں عدم استحکام کی بنیاد رہی ہے۔
اسرائیل نے خطے میں جہاں ایک طرف سیاسی استحکام کو نشانہ پہنچایا ہے وہاں ساتھ ساتھ دہشت گردی کو پروان چڑھایا ہے۔
یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ شام میں انسانوں کا قتل عام کرنے والے دہشت گرد داعش گروہ کے دہشت گردوں کو تل ابیب میں علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کی جاتی رہی ہیں۔
ماہرین سیاسیات کی نظر میں عرب امارات اور بحرین سمیت سوڈان کو اس بات کی طرف ضرور توجہ کرنی
چاہئیے کہ تاریخی اور شواہد کے اعتبار سے اسرائیل کسی طور پر ان ممالک کے لئے مفید ثابت نہیں ہو سکتا ہے۔
ماہرین کی رائے کے مطابق عرب امارات اور بحرین ہوں یا پھر افریقی ملک سوڈان ہو دیر یا جلد بالآخر اسرائیل کا شکار ہو جائیں گے۔ اسرائیل عرب خطے میں اور افریقی خطے میں اپنے تمام تر مقاصد حاصل کرنے کے بعد ان تمام تسلیم کرنے والے ممالک اور ان کی حکمرانوں کی فلسطین سے زیادہ بد تر صورتحال پیدا کر دے گا۔
یہ بات کوئی محض خیالات نہیں بلکہ صہیونیوں کی گذشتہ ایک سو سالہ تاریخ ثابت کرتی ہے۔
بہر حال عرب امارات، بحرین اور سوڈان ان تمام مقامات پر حکمرانوں نے اسرائیل کے مفادات کی خاطر تمام کچھ دائو پر لگا دیا ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل ان تمام فوائد کے بعد کس طرح ان ریاستوں کے حکمرانوں کو ٹشو پیپر کی طرح پھینک دے گا۔
دنیا کو یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ چاہے کوئی بھی اسرائیل کو تسلیم کر لے اگر ایک بھی فلسطینی فلسطین میں باقی ہے اور وہ فلسطین کا نام لیتا ہے تو بھی فلسطین کی شناخت اور حیثیت کو ختم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اسرائیل کے جعلی وجود کو اصلی تصور کیا جا سکتا ہے۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔