سرزمین قدس تاریخ کے اعتبار سے سنہ1948ء سے غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے شکنجہ میں ہے۔
مسجد اقصیٰ وہ مقام ہے جہاں نبی کریم حضرت محمد مصطفی (ص) کو شب معراج اسی مقام پر لایا گیا تھا
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
مسجد اقصیٰ ایک ایسا مقام ہے کہ جو عالم اسلام کے لئے بیت اللہ اور مسجد نبوی کے بعد اہم ترین مقام کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ وہی مقام ہے کہ نبی کریم (ص) رخ فرما کر عبادت کرتے رہے ۔ یہ مقام ایسی مبارک اور مقدس سرزمین پر واقع ہے جس کو فلسطین کہتے ہیں اور فلسطین کو انبیاء و اسریٰ کی سرزمین کہا جاتا ہے ۔ یہی وہ مقام ہے کہ جس کے بارے میں مسلمانوں کی آسمانی کتاب یعنی قرآن مجید میں ذکر ہو اہے جس کا مفہوم اس طرح سے ہے کہ، ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو لے گئی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ‘‘ ۔ یعنی نبی کریم حضرت محمد مصطفی (ص) کو شب معراج اسی مقام پر لایا گیا تھا جہاں آپ نے انبیائے کرام کے ارواح مقدس کی جماعت کی امامت فرمائی ۔ اس مقام کو بیت المقدس بھی کہا جاتا ہے ۔
اگر مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس کی فضیلت بیان کی جائے تو شاید ایک دو مقالوں سے کام نہیں بنے گا ۔ یہ ایک تفصیلی موضوع ہے ۔ ہمارے مقالہ کا مقصد یہ ہے کہ اس مقام کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے موجودہ حالات میں اس مقدس مقام پر ہونے والے حادثات کو بیان کیا جائے او ر نوجوان نسل کے لئے آگہی کا راستہ فراہم ہو ۔
سرزمین فلسطین عام تاریخ کے اعتبار سے سنہ1948ء سے غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے شکنجہ میں ہے ۔ آج تک صہیونیوں نے جہاں فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے وہاں ساتھ ساتھ علاقہ کی دیگر اقوام اور ممالک کی حکومتوں کے خلاف بھی جارحیت کی ہے ۔ اسرائیل کے ظلم و ستم فقط انسانی جان تک محدود نہیں ہیں بلکہ فلسطین کی سرزمین پر موجود مقدس مقامات کہ جن کا تعلق اسلام، مسیحی مذہب اور خود یہودی مذہب سے بھی ہے سب کے سب مقدس مقامات صہیونیوں کی درندگی سے محفوظ نہیں ہیں ۔
قبلہ بیت المقدس فلسطین پر صہیونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل کے قیام سے تاحال کسی نہ طرح صہیونیوں کی مذہبی جنونیت اور درندگی کا نشانہ بنتا رہاہے ۔
مسجد اقصیٰ میں صہیونیوں کا جوتوں سمیت داخل ہونا، مسجد کے در ودیوار کو نقصان پہنچانا، نمازیوں کو مسجد جانے سے روکنا، لاءوڈ اسپیکر کو بند کرنا، نماز باجماعت اور جمعہ نماز کے اجتماعا ت پر پابندی لگانے سمیت مسجد میں فلسطین کے باسیوں کا داخلہ ممنوع قرار دینے جیسے ظلم و ستم عام ہو چکے ہیں اور روز مرہ کے واقعات شمار ہوتے ہیں ۔
البتہ صہیونیوں نے سنہ1969ء میں قبلہ اول بیت المقدس کو منہدم کرنے کے لئے نذر آتش بھی کیا تھا یہ 21اگست کا دن تھا ۔ اسی طرح کئی ایک مرتبہ صہیونی یہ کوشش کرچکے ہیں کہ قبلہ اول بیت المقدس کی نیچے زمین میں بنیادوں کو کھود دیا جائے تا کہ مسجد خود بخود منہدم ہو جائے اور ا سطرح سے فلسطینیوں کا اور عالم اسلام کا قبلہ اول بیت المقدس سے معاملہ ہی ختم ہو جائے ۔
صہیونیوں کی جانب سے مذہبی مقدس مقامات کی توہین اور بے حرمتی کرنے کے لئے باقاعدہ پولیس سیکورٹی فراہم کی جاتی ہے تا کہ صہیونیوں کے گروہ در گروہ مقدس مقامات کی توہین اور بے حرمتی کرتے رہیں اور ان کو کوئی روکنے والا نہ ہو ۔ سرزمین فلسطین پر جہاں قبلہ اول بیت المقدس صہیونی سازشوں کا نشانہ ہے وہاں ساتھ ساتھ مسیح مذہب کے مقدس مقامات کہ جن میں پیغمبر خدا جناب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش کا مقام کہ جہاں پر چرچ آف نیٹی ویٹی موجود ہے اس کو بھی صہیونیوں کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا ہے ۔
ماضی قریب ہی کی بات ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے عنوان سے کرسمس کے موقع پر اس چرچ میں صہیونیوں نے مسیحی فلسطینیوں کو داخلہ سے روک دیا تھا ۔ یہ بالکل اسی طرح سے ہے جیسا کہ مسلمان فلسطینیوں کو قبلہ اول بیت المقدس میں عباد ت گزاری سے روک دیا جاتا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ مسلمان اور مسیحی فلسطینیوں کے مقدس مقامات کو صہیونی دہشت گرد جب چاہتے ہیں توہین کا نشانہ بناتے ہیں ۔ یہاں تک کہ بیت اللحم شہر میں یہودی مقدس عبادت گاہیں بھی صہیونی شرپسندوں سے محفوظ نہیں رہی ہیں ۔ واضح رہے کہ یہودی قوم میں ایسے یہودی موجود ہیں جو فلسطین پر اسرائیل کی ریاست کے قیام کو ناجائز اور غاصبانہ تسلط تصور کرتے ہیں ۔
حال ہی میں تازہ ترین اطلاعات کے مطابق
صہیونیوں کی غاصب او ر جعلی ریاست اسرائیل نے قبلہ اول بیت المقدس کے خلاف اپنی سازشی سرگرمیوں کو مزید تیز کر دیا ہے
اور اب کہا جا رہاہے کہ مسجد اقصیٰ کا باب الرحمۃ مقام منہدم کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے اور اس کی جگہ پر صہیونیوں کی مقدس مقام کو تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے ۔ اسی ضمن میں گذشتہ دنوں موصول ہونے والی خبروں میں یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ سرکاری انجینئر نے مسجد اقصیٰ کا سروے کرنے کی کوشش کی جس پر مقامی فلسطینیوں نے شدید احتجاج کیا ہے اور اس بات کا اعلان کر دیا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے ایک ای انچ کی باقاعدہ حفاظت کی جائے گی اور صہیونیوں کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ فلسطینی عرب مقدس مقامات کی توہین کریں اور صہیونی عبادت گاہوں میں تبدیل کریں ۔
ان تمام تر معاملات میں جو بات سب سے زیادہ غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ گذشتہ دو برس میں جب سے امریکی سرپرستی میں کچھ عرب ریاستوں نے اسرائیل کی قربت اختیار کرنا شروع کی ہے اس کے بعد سے ہی یہ بات مشاہدے میں آ رہی ہے کہ اسرائیل ایک طرف فلسطینی زمینوں پر صہیونیوں کی آباد کاری کے نئے نئے منصوبے شروع کر رہا ہے تو ساتھ ساتھ عالم اسلام کے قلب بیت المقدس کو یہودیانہ کی کوششیں بھی تیز کر دی ہیں ۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ عرب ریاستیں جو اسرائیل کو تسلیم کر چکی ہیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں ۔
ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والوں بشمول متحدہ عرب امارات، بحرین، ترکی، مراکش اور دیگر کی جانب سے اسرائیل کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے کہ وہ جیسے چاہے فلسطین پر اپنا تسلط بڑھاتا رہے اور مقدس مقامات کو بھی نقصان پہنچائے۔
مسجد اقصیٰ کے امام اور خطیب الشیخ ڈاکٹر اسماعیل نواھضہ نے کہا ہے کہ مسجد اقصیٰ کو صہیونی ریاست کی غلیظ اور گھناءونی سازشوں کا سامنا ہے ۔ قبلہ اول کے خلاف اسرائیل کی نئی اور تازہ سازشوں میں مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی سروے انجینیرز کا مسجد اقصیٰ میں داخلہ اور مقدس مقام کی بے حرمتی ہے ۔ اسرائیل فلسطینیوں کو تو مسجد اقصیٰ میں نماز اور عبادت کی ادائیگی سے روک رہا ہے ۔
فلسطینی اراضی میں بلا توقفن یہودیوں کے لیے ہزاروں مکانات کی تعمیر کی منظوری دی جا رہی ہے ۔
مسجد اقصیٰ کو قابض دشمن کی جانب سے گھٹیا سازشی چالوں کا سامنا ہے ۔
صہیونی آباد کاروں کو قبلہ اول پردھاوا بولنے کے لیے فول پروف سیکیورٹی مہیا کی جاتی ہے ۔ بیت المقدس کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے ۔ حرم قدسی میں تلمودی تعلیمات کے مطابق مذہبی رسومات کی ادا کی جاتی ہیں ۔
مسجد اقصیٰ کی زمانی اور مکانی تقسیم کے لیے روز مرہ کی بنیاد پر سازشیں جاری ہیں ۔ بزرگ، بچے اور مائیں بہنیں توہین آمیز ظلم کا سامنا کررہے ہیں ۔ فلسطینی بچوں کو بغیر کسی جرم کے جان سے مار دیا جاتا ہے ۔ شہریوں کو ایسی کال کوٹھڑیوں میں ڈالا جاتا جہاں انہیں بنیادی انسانی حقوق تک میسر نہیں ہیں ۔
اس کے برعکس عالمی برادری اور خاص طور سے عرب مسلم حکمران خاموش ہیں ۔ البتہ ا س تمام تر صورتحال میں بھی فلسطینیوں کے حوصلہ بلند ہیں اور ہمت جواں ہے ۔ وہ صہیونیوں کی تمام سازشوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں اور اس عزم کے ساتھ اپنی جد وجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں کہ اب وقت قریب آن پہنچا ہے کہ جس کا خواب ان کے بزرگوں اور پہلے کی نسل نے دیکھا تھا یعنی فلسطین اور قبلہ او ل کی مکمل آزادی اور حریت ۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔