ماہ رمضان مبارک کے آخری جمعہ کو فلسطینی عوام اور بالخصوص مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔
القدس ہی کی پکا ر ہے کہ جس نے اب تک مسلم دنیا کی اقوام کو باہم متحد رکھا ہوا ہے
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
بچپن کی یادیں آج بھی تازہ ہو جاتی ہیں جب ہر سال رمضان المبارک میں آخری جمعہ کی آمد ہوتی ہے اور سڑکوں اور دیواروں پر یوم القدس کی یعنی القدس کے متعلق تشہراتی پروگرام نظر آتے ہیں۔ماضی کی یادیں آج بھی اسی طرح سے ہیں کہ جب والدین کے ساتھ جمعۃ الوداع کی تیاریوں میں مصروف رہتے تھے اور اچھی طرح سے یاد ہے کہ اس دن کا اہتمام اس قدر پابندی اور واجب انداز میں کیا جاتا تھا کہ جیسے اگر اس طرح نہ ہوا تو شاید کوئی غلطی سرزد ہو جائے۔ وقت کے ساتھ ساتھ آخر اس دن کی اہمیت بھی سمجھ آتی رہی اور یہ بات سمجھ میں آگئی کہ کیوں جمعۃ الوداع کو یوم القدس کی مناسبت سے واجب انداز میں تیاری کی جاتی ہے۔مطالعہ کی میز پر پہنچ کر یہ بات مزید پختگی سے سمجھ آتی رہی کہ آخرالقدس کا مسئلہ اس قدر اہمیت کا حامل کیوں ہے۔
ویسے تو فلسطین کا مسئلہ سنہ1917ء سے بالفور اعلامیہ کی بھینٹ چڑھتا ہوں آج ایک سو سال سے زیادہ گزر جانے کے بعد بھی مزید سنگین ہو چکا ہے۔ جو نا انصافی ایک سو سال پہلے کی گئی اسی ناانصافی کی پردہ پوشی بھی ایک سو سال تک انہی ظالم اور جابر قوتوں بشمول امریکہ او ر برطانیہ نے جاری رکھی تا کہ آنے والی نئی نسلیں ان کے جھوٹے اور کھوکھلے انسانیت کے دعووں سے پردہ نہ ہٹا سکیں۔ آج کی دنیا بے حد تبدیل ہو چکی ہے۔ آج یورپ اور ایشیاء کا نوجوان ایک سو سال پرانی اس گھناؤنی سازش اور نا انصافی پر نالاں نظر آ رہا ہے۔
بہر حا ل عالمی استعماری قوتوں نے اپنے مفادات کی خاطر جہاں فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالی کو انجام دیا وہاں متعدد معاشرتی حقوق بھی ساتھ ساتھ پامال کئے گئے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ کیونکہ بات یوم القدس سے چلی ہے اور القد س جو کہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اس سے متعلق بھی فلسطینیو ں کے حقوق کو سلب کیا گیا ہے۔ فلسطین میں بسنے والے فلسطینی عربوں کی مذہبی آزادی کو سلب کیا گیا ہے۔
عالمی استعمار امریکہ اور برطانیہ سمیت دیگر حواری پہلے دن سے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ قبلہ اول بیت المقدس کی مسلمان دنیا میں کیا اہمیت ہے۔اسی وجہ سے دنیا میں شعائر اللہ کو نقصان پہنچانے کی مغربی سامراج کی فکر مسلسل القدس کو نشانہ بناتی رہی ہے۔ سنہ1969ء میں باقاعدہ قبلہ اول بیت المقدس کو صہیونیوں نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت نذر آتش کیا اور بعد ازاں یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ ایک پاگل اور ذہنی توازن سے عاری یہودی نے مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جس یہودی کا ذہنی توازن خراب ہو وہ بھی قبلہ او ل بیت المقدس کی اہمیت کو جانتا تھا اور اس نے اس کو نقصان پہنچانے کی کوئی کسر نہ رکھی۔
موجودہ زمانہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ گذشتہ چند برس سے القدس کے خلاف سازشوں کا بازار تیزی سے گرم کر دیا گیا ہے۔ امریکی اور برطانوی استعمار یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ مسلمانوں کا قبلہ اول موجودہ دور میں مسلم امہ کے اتحاد کی ایک علامت اور مظہر ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے کہ جہاں مسلمان دنیا بھر میں متحد ہو سکتے ہیں اور اس کی بازیابی کے لئے جد وجہد کر رہے ہیں۔ انہی حقائق کے پیش نظر آپ دیکھئے فلسطین اور فلسطین میں موجود شعائرا للہ کے دشمنوں نے القدس کے خلاف ہی سازشوں کے جال بننا شروع کئے ہیں۔ چند سال قبل کی بات ہے کہ امریکہ کے اس وقت کے صدر ٹرمپ نے بہت ہی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ القدس شہر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ القدس شہر اسرائیل کا دارلحکومت ہو گا۔ نہ صرف یہ بلکہ ساتھ ساتھ امریکہ نے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے القدس میں منتقل کرنے کا اعلان بھی کیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اگر امریکی سفارتخانہ القدس میں منتقل ہوجاتا ہے تو اس طرح اس مقام کی حیثیت خود بخود اسرائیل کے حق میں تبدیل ہو جائے گی۔حالانکہ امریکی صدر یہ بات جانتا تھا کہ اسرائیل نام کی یہ ریاست جو فلسطین پر غاصبانہ انداز میں مسلط کی گئی ہے کسی بھی قانون اور اخلاق کی رو سے حیثیت نہیں رکھتی ہے۔ جبکہ القدس ہزاروں سال پرانی تاریخ اور ثقافتی تاریخ کا حامل ہے۔ یہ ایک ایسا مقام ہے کہ جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ عیسائیوں اور ان یہودیوں کے لئے بھی متبرک ہے جو صہیونزم کو رد کرتے ہیں اور فلسطین کو فلسطینیوں کا وطن مانتے ہوئے اسرائیل کو ایک جعلی ریاست تصور کرتے ہیں۔
امریکی اور برطانوی استعمار نے یورپی اور عربی آلہ کاروں کے ذریعہ گذشتہ تین برس میں جو قبلہ اول بیت المقدس کے خلاف سازشیں کی ہیں ان میں سرفہرست اوپر بیان کی گئی ہے۔اسی طرح ان عالمی طاقتوں نے یورپ اور افریقہ کے چھوٹے ممالک پر دباؤ ڈال کر مجبور کیا کہ وہ سب بھی القدس کی حیثیت کو اسرائیل کے حق میں تسلیم کریں اور اپنے اپنے سفارتخانوں کو دیگر مقامات سے منتقل کر کے یروشلم شہر میں منتقل کریں تاکہ امریکہ اور یورپ کا دیرینہ خواب اسرائیل کے حق میں پایہ تکمیل کو پہنچ جائے۔
اسی طرح مغربی استعماری قوتوں نے اگلا قدم اٹھاتے ہوئے عرب دنیا کے حکمرانوں کو آئندہ پچاس پچاس سال کے بادشاہت کے خواب دکھا کر جھوٹے وعدے کئے اور ان کے ذریعہ بھی القدس کے خلاف اپنی گھناؤنی سازش کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی۔اس دوران چند ایک عرب ممالک کے ذریعہ یہ اعلان کروائے گئے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں اور سفارتی تعلقات قائم کر رہے ہیں۔اس کے بعد مسلسل ان کوششوں کو جاری رکھا گیا تا کہ قبلہ اول بیت المقدس کے خلاف شروع کی جانے والے صہیونیوں کے منصوبوں کوتکمیل تک پہنچایا جائے۔،
ایسے حالات میں القدس مسلسل سازشوں کا مقابلہ کرر ہا ہے۔ ان سازشوں کا مقابلہ دنیا بھر میں القدس کے محافظین نے اپنی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔اگر چہ دشمن کثیر ہیں اور مسلم امہ کی صفوں میں بھی خائن اور دھوکہ باز موجود ہیں لیکن ان حالات میں بھی ایسے حریت پسند موجود ہیں کہ جنہوں نے القدس کی پکار پر لبیک کہا ہے۔القدس کے خلاف سازشوں کو روکنے اور ناکام بنانے کا سب سے اہم ذریعہ مسلم امہ کے اتحا دمیں ہی پنہاں ہے۔ کیونکہ امریکی اور صہیونی دشمن نے جس مرکز پر وار کیا ہے اس کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ وہ مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دے تا کہ ایک طرف مسلم امہ فلسطین کے مسئلہ سے غافل ہو جائے تو دوسری طرف قبلہ اول پر مستقل تسلط کے بعد صہیونی اپنی من مانی کریں۔
خلاصہ یہ ہے کہ القدس کی مسلسل ایک ہی پکار ہے۔ یہ پکار مسلم دنیا کے اتحاد کی خاطر ہے۔ فلسطینی بھائیوں نے مزاحمت کے راستہ سے اس پکار پر لبیک کہا ہے۔اسرائیل جیسے ظالم و جابر دشمن کے مقابلہ میں ڈٹ گئے ہیں۔ حالانکہ سازشوں کا بازار گرم ہے۔آج مسلم دنیا کا اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور القدس ایک ایسا مرکزی نقطہ ہے کہ جہاں مسلمان اقوام متحد ہو جاتی ہیں۔القدس ہی کی پکا ر ہے کہ جس نے اب تک مسلم دنیا کی اقوام کو باہم متحد رکھا ہوا ہے۔بہر حال ہر دور میں القدس کی اہمیت باقی رہے گی اور القدس کا مرکز مسلمان اقوام کو اتحاد کی دعوت دیتا رہے گا کیونکہ یہ مسلم اقوام کا اتحا دہی ہے جو اسرائیل کو ریزہ ریزہ کر دے گا۔ وہ تمام خائن حکمران جو امریکہ اور یورپ کی سازشوں کے سایہ میں فلسطین اور قبلہ اول کے ساتھ خیانت کاری میں مصروف ہیں وہ اپنا قبلہ درست کر لیں۔ یہ با ت اب روز روشن کی طرح حقیقت بن چکی ہے کہ جہاں کہیں بھی فلسطین کے مظلوموں کی بات ہو گی اور جہاں کہیں بھی قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کی بات ہو گی تو ہمیں مسلمان اقوام باہم متحد نظر آئیں گی اور یہ القدس کی پکار ہے جو آج مسلمان اقوا م سے تقاضہ کر رہی ہے
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔