Featuredبلوچستان

فشنگ ٹرالرز کو گوادر بندرگاہ پر روک دیا گیا

گوادر: چین کے سفارتخانے نے ہمیں لیٹر بھیجا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی اور موسم کی خرابی کی وجہ سے یہ ٹرالر یہاں آ گئے تھے

وزیر جہاز رانی علی حیدر زیدی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ان فشنگ ٹرالرز کو گوادر بندرگاہ پر روک دیا گیا ہے اور ان کی وزرات اس معاملے کی مزید چھان بین کر رہی ہے

اس سے قبل جمعہ کے روز وفاقی وزیر علی حیدر زیدی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ پاکستان کی آبی حدود کے اندر ٹرالنگ پر پابندی ہے اور پاکستان میرین سکیورٹی ایجنسی ہر قسم کی ٹرالنگ پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔
’گوادر کے قریب چند کشتیاں دیکھی گئی ہیں جن کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے اور ذمہ داروں کو کڑی سزا دی جائے گی مقامی ماہی گیروں کا تحفظ اولین ذمہ داری ہے۔

واضح رہے کہ گوادر کے ماہی گیروں نے مچھلی کے شکار کے دوران ان چینی ٹرالرز کو دیکھا اور اس کی ویڈیو بھی بنائی، جس کے بعد یہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیل گئی۔

گوادر ماہی گیر اتحاد کے صدر خدائیداد عرف واجو نےبتایا کہ پسنی میں استولا(ہفت تلار) کے علاقے میں ماہی گیروں نے تین چار چینی ٹرالروں کو شکار کرتے ہوئے دیکھا اور اس کے بعد دس پندرہ دن سے گوادر میں پہاڑ کے پیچھے چار پانچ چینی ٹرالر لنگر انداز ہیں۔

انھوں نے کہا کہ جب فشریز ڈیپارٹمنٹ کے لوگ گئے تو ان ٹرالروں میں ایسی مچھلیوں کو دیکھا گیا جو بلوچستان کی سمندری حدود میں شکار کی جاتی ہیں۔
خدائیداد کے مطابق تمام حکومتی اداروں کے لوگوں نے انھیں یقین دہانی کرائی کہ انھوں نے کسی چینی یا باہر کے ٹرالر کو اجازت نہیں دی۔

’لیکن یہ جنگل تو نہیں کہ کوئی خود سے یہاں آ جائے۔ جب یہ بلوچستان کی سمندری حدود میں آئے ہیں تو ان کو آخر کسی نے تو اجازت دی ہے تبھی تو وہ یہاں آئے ہیں۔
گوادر بلوچستان کے ماہی گیروں کی سب سے بڑی اور قدیم بستی ہے، جہاں لوگوں کی اکثریت کا دارومدار ماہی گیری سے واسبتہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گوادر میں بنائی جانے والی 70 سے زائد ہاؤسنگ اسکیمیں جعلی ہونے کا انکشاف

خدائیداد کے مطابق یہاں روزگار اور معاش کے دیگر ذرائع نہیں اور اگر ان ٹرالرز کی تعداد بڑھ گئی تو مچھلی ختم ہو جائے گی۔
انھوں نے کہا ’یہ ہمارے ذریعہ معاش کو تباہ کریں گے تو یہ ہمارے ساتھ بڑی زیادتی ہو گی۔‘

خدائیداد بلوچ کا کہنا تھا کہ ماہی گیروں نے اپنی بہترین جگہ کو پورٹ کے لیے یہی سوچ کر چھوڑ دیا تھا کہ اس سے انھیں خوشحالی ملے گی لیکن اب ہمارے ذرائع معاش کو چھینا جا رہا ہے۔

’جو حکومتی ادارے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ ہمارے حقوق کا تحفظ کریں لیکن وہ مبینہ طور پر ہمارے ذرائع معاش کو چین کے حوالے کر رہے ہیں جس کے خلاف ہم احتجاج کررہے ہیں۔‘

محکمہ ماہی گیری بلوچستان کے ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ میرین ٹائمز سکیورٹی ایجنسی نے پیر کی شب یہ اطلاع دی کہ انھوں نے پانچ چینی فشنگ جہازوں کو تحویل میں لیا ہے اور ان میں مچھلی تھی۔

اہلکار کے مطابق محکمہ فشریز کو بتایا گیا کہ ان چینی ٹرالروں کے پاس انڈین اوشن میں فشنگ کا لائسنس تھا لیکن حالیہ طوفان اور بعد میں مون سون بارشوں کے باعث خراب موسمی حالات کی وجہ سے ان کے عملے کو بلوچستان کی سمندری حدود میں پناہ لینا پڑی تھی۔

اتوار کو نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام گوادر شہر میں ایک احتجاج بھی کیا گیا اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی میر حمل کلمتی نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بھی اس معاملے کو اٹھایا۔

میر حمل کملتی کا کہنا تھا کہ عید کے موقع پر تین بڑے چینی ٹرالر آئے تھے۔ ان کے پاس ماہی گیری کا جدید نظام ہے جس سے وہ یہ پتہ لگاتے ہیں کہ کس سائز کی مچھلیاں سمندر کے کس علاقے میں موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان ٹرالروں کے پاس وہ جال ہوتے ہیں جو بلوچستان حکومت کے قوانین کے مطابق غیر قانونی ہیں کیونکہ وہ اگر ساحل پر ماہی گیری شروع کریں گے تو یہ مچھلیوں کی نسل کشی ہو گی۔
’یہ ٹرالر بغیر اجازت نامے کے نہیں آتے ہیں۔ حکومتی ادارے جب باہر سے آنے والے ٹرالروں کو غیر قانونی فشنگ کی اجازت دیں گے تو

اس کا مطلب ہے کہ وہ لوگوں کو خود احتجاج کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ جب آپ لوگوں کو روزگار دینے کی بجائے ان کا روزگار چھین لیں گے تو وہ احتجاج پر مجبور ہوں گے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close