Featuredپنجاب

بلدیاتی نظام کو تحلیل کرنا آئین کے آرٹیکل 17، 140 اے، 7 اور 32 کی خلاف ورزی ہے

اسلام آباد:چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کے لکھے گئے ایک تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ پنجاب میں بلدیاتی نظام کو تحلیل کرنا آئین کے آرٹیکل 17، 140 اے، 7 اور 32 کی خلاف ورزی ہے

رواں سال 25 مارچ کو تین ججز پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے ایک مختصر آرڈر کے ذریعے صوبے میں بلدیاتی اداروں کی بحالی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے انہیں بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

پنجاب حکومت نے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ (پی ایل جی اے) 2019 کے سیکشن 3 کے تحت بلدیاتی اداروں کو تحلیل کردیا تھا حالانکہ انتخابات پی ایل جی اے 2013 کے تحت 2015 اور 2016 میں مرحلہ وار ہوئے تھے۔
جس میں منتخب بلدیاتی اداروں کا دورانیہ 5 سال تھا۔
صوبائی حکومت نے سیکشن 3 (2) میں ترمیم کے بعد ’پانچ سال‘ کی جگہ ’21 ماہ‘ کے الفاظ اس میں شامل کرتے ہوئے گزشتہ سال

2 جولائی کو بلدیاتی اداروں کو ختم کردیا تھا۔
18 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 140-اے کے تحت قائم بلدیاتی نظام، جب قانون کے تحت ایک مخصوص مدت کے لیے منتخب بلدیاتی حکومت کے پاس جاتا ہے تو اس کی مدت پوری ہونے سے پہلے اسے تحلیل نہیں کیا جاسکتا۔

اسد علی خان کی جانب سے ان کے وکیل محمد نوازش علی پیرزادہ اور دانیال عزیز کے ذریعے دائر درخواستوں کے ایک سیٹ پر سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا۔

درخواست گزاروں نے پی ایل جی اے 2019 کی دفعہ 3 کے تحت اس تحلیل کو چیلنج کیا تھا کہ بلدیاتی اداروں کے منتخب ممبران اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے اہل ہیں، جو اس سال 31 دسمبر کو ختم ہونی ہے۔

آئین کے آرٹیکل 140-اے کا حوالہ دیتے ہوئے فیصلے میں کہا گیا کہ اس دفعہ میں صوبوں کی جانب سے بلدیاتی نظام کے قیام کا تصور دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم عمران خان نے پنجاب میں نئے بلدیاتی نظام کے مسودے کی منظوری دے دی

فیصلے میں کہا گیا کہ اس کے لیے مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کے لیے سیاسی، انتظامی اور مالی ذمہ داری اور اختیار کو بھی ختم کرنا ہوگا۔

اس فیصلے نے صوبائی حکومت کو یاد دلایا کہ اس کے پہلے اجلاس کے بعد سے پانچ سال تک ایک مقامی حکومت کو اپنے عہدے پر رہنا تھا۔

اس میں کہا گیا کہ چونکہ پنجاب میں بلدیاتی اداروں نے جنوری 2017 میں پہلا اجلاس کیا تھا لہذا ان کی مدت جنوری 2022 میں ختم ہونی تھی۔
آئین کے آرٹیکل 7 کے تحت مقامی حکومت کو ’ریاست‘ کا درجہ دیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ فیڈریشن میں حکومت کا تیسرا درجہ تھا۔

آرٹیکل 17 ایسوسی ایشن کو آزادی فراہم کرتا ہے اور ہر شہری کو ایسوسی ایشن، یونین بنانے یا کسی سیاسی جماعت کا ممبر بننے کا حق دیتا ہے۔

اسی طرح آرٹیکل 32 ’ریاست کی پالیسی کے اصولوں‘ کا ایک حصہ ہے اور یہ ریاست کے منتخب نمائندوں پر مشتمل مقامی حکومت کے اداروں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبائی مقننہ قانون بنانے کا اہل ہے اور 2019 کا قانون ایک قانون ساز اسمبلی نے بنایا ہے تاہم مسئلہ صرف اس ایکٹ کے سیکشن 3 کے حوالے سے ہے جہاں اس سے پنجاب میں مقامی حکومتیں تحلیل ہو جاتی ہیں اور تمام منتخب نمائندوں کو اپنے عہدے کی مدت پوری کرنے کی اجازت کے بغیر گھر بھیج دیا جاتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ 2013 کے ایکٹ نے انہیں یہ حق دیا تھا۔
ایک منتخب بلدیاتی حکومت کو 2019 کے قانون کی دفعہ 3 کے اطلاق سے تحلیل نہیں کیا جاسکتا۔

عدالت نے یاد دلایا کہ 2013 کے ایکٹ نے صوبائی حکومت کو ایسے اختیارات نہیں دیے تھے۔

سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ ایک فاتح سیاسی جماعت کو منشور پر عمل درآمد کرنا ہوگا جس کی بنیاد پر اس نے بلدیاتی انتخابات لڑے تھے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close