کراچی: چھ دہائیوں قبل پاکستان میں جذام یا کوڑھ کے مریضوں کی حالت دگرگوں تھی اِس بیماری کو ’لاعلاج‘ اور ’خدا کا عذاب‘ سمجھا جاتا تھا لوگ سگے رشتے بھلا دیتے تھے
جذام کے مریضوں کی الگ بستیاں آباد تھیں جہاں کوڑھ میں مبتلا ہزاروں مریض غیر انسانی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ غلاظت اور گندگی کے بیچوں بیچ جھونپڑیوں میں آباد یہ لوگ بجلی، پانی اور علاج کی بنیادی سہولتوں سے محروم تھے۔ اُن کے جسم سے بہتا خون اور زخموں سے رِستی پیپ چوہوں کی غذا بنتی تھی۔
پھر ایک روز اتفاق سے جرمنی سے تعلق رکھنے والی 30 سالہ نوجوان ڈاکٹر پاکستان آئیں اور جذام کے مریضوں کی حالتِ زار دیکھ کر اپنی بقیہ تمام تر زندگی دھتکارے اور ٹھکرائے ہوئے مریضوں کا علاج کرنے کا تہیہ کر لیا۔
65 سال کی گلّو چھوٹی سی تھیں جب پہلی بار جذام کے علاج کے لیے ڈاکٹر فاؤ کے پاس آئیں۔ آج بھی اُن کی محبوب ڈاکٹر فاؤ کا ذکر آئے تو وہ آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ پاتیں۔
’میں نے جب پہلی بار اُن کو دیکھا تھا تو وہ بالکل جوان تھیں۔ چھوٹی سی عمر تھی اُن کی۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ اِن مریضوں کا جسم سُن ہے اِن کا دل سُن نہیں۔ اِن کا دل نہیں دُکھنا چاہیے۔ ہم سب سے وہ بہت پیار کرتی تھیں۔‘
ڈاکٹر فاؤ خیال رکھتی تھیں کہ ہمارا دل نا دُکھے۔ وہ ہمارے زخموں والے پاؤں اپنی گود میں رکھ کر چیک کیا کرتی تھیں۔ جو کام اُنھوں نے کیا وہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ یہ جذبہ کسی کسی میں ہوتا ہے۔
سنہ 1929 میں جرمنی میں پیدا ہونے والی روتھ فاؤ نے دوسری جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں کے درمیان آنکھ کھولی تھی۔
وہ جرمنی سے فرانس گئیں اور وہاں طب کی تعلیم حاصل کی۔ پھر وہ ’ڈاٹرز آف دی ہولی ہارٹ آف میری‘ نامی کیتھولک تنظیم سے وابستہ ہو گئیں۔
سنہ 1960 میں سماجی خدمت کے لیے انھوں نے انڈیا جانے کا فیصلہ کیا لیکن ویزا کے مسائل کی وجہ سے اُنھیں پاکستان کے شہر کراچی میں رُکنا پڑا۔
کراچی میں قیام کے دوران اُنھیں میکلوڈ روڈ (اب آئی آئی چندریگر روڈ) پر جذام کے مریضوں کی بستی میں قائم عارضی کلینک کو دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ جذام کے مریضوں کی ابتر حالت سے اتنی متاثر ہوئیں کہ اُنھوں نے انڈیا جانے کا ارادہ ترک کر کے کراچی میں رُکنے کا فیصلہ کیا۔
جلد ہی ڈاکٹر روتھ فاؤ نے عارضی ڈسپنسری کو مستقل کلینک کی شکل دی اور چند برسوں بعد کراچی کے علاقے صدر میں ’میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر‘ کی بنیاد رکھی۔ پچاس بیڈ پر مشتمل یہ ہسپتال آج بھی قائم ہے جہاں دوائیں، ٹیسٹ اور دیگر تمام سہولیات پہلے دن کی طرح آج بھی بالکل مفت ہیں۔
’میرا علاج ڈاکٹر فاؤ نے کیا۔ وہ مریض پر جان نچھاور کرتی تھیں، نہ دن دیکھتیں اور نہ رات۔ مریض کے اندر ان کی جان تھی۔ جب آخری دنوں میں وہ بہت بیمار تھیں تب بھی صرف مریضوں کے بارے میں ہی پوچھتی تھیں۔‘
یہ بھی پڑ ھیں : ڈاکٹر رتھ فاؤ مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک
پیر علی شاہ کہتے ہیں کہ ’ڈاکٹر فاؤ ایک عظیم انسان تھیں۔ لوگ جن مریضوں سے ڈرتے تھے وہ اُن کی خدمت کرتی تھیں۔ اُس کی بہت یاد آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری کوئی بہت عزیز چیز گم ہو گئی ہے۔‘
ڈاکٹر روتھ فاؤ کا مشن تھا کہ پاکستان کے کونے کونے میں جذام کے مریضوں کے لیے سینٹرز بنائے جائیں تاکہ مریضوں کو علاج کی سہولیات باآسانی اُن کے گھر کے قریب مل سکیں۔
ڈاکٹر فاؤ خود ملک کے چپے چپے میں گئیں اور جذام کے مریضوں کا علاج کیا۔ تھرپارکر کے ریگستان ہوں یا خیبرپختونخوا کے دشوارگزار پہاڑ، ملک کا کوئی علاقہ ایسا نہ تھا جہاں وہ نہ پہنچیں ہوں۔
جب پوچھا جاتا کہ ایک عورت ہونے کے ناطے قبائلی معاشرے میں آپ کو مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تو وہ ہنس کر جواب دیتیں ’اماں کے لیے کیا مشکل؟‘ وہ کہتی تھیں کہ لوگ جانتے ہیں کہ میں اُن کی مدد کرنے آئی ہوں اِس لیے وہ مخالفت کے بجائے میری ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔
اُن جیسا کوئی نہیں تھا۔ انھوں نے میرا جتنا خیال رکھا وہ میں بُھلا نہیں سکتی۔ ڈاکٹر فاؤ بہت نفیس خاتون تھیں۔ کام کے دوران بھی اگر ہم لوگوں سے کوئی غلطی ہو جاتی تو وہ ڈانٹتی نہیں تھیں بلکہ سمجھاتی تھیں
ذکیہ خاتون یاد کرتی ہیں کہ ایک بار رمضان کے دنوں میں ڈاکٹر فاؤ افطار کے وقت اُن کے پاس آئیں اور ساتھ روزہ کھولا۔ ذکیہ بتاتی ہیں کہ آج بھی جب کبھی وہ کراچی کے گورا قبرستان کے پاس سے گزرتی ہیں تو ڈاکٹر فاؤ کو دور سے سلام ضرور کرتی ہیں۔
ایران سے تعلق رکھنے والے شیر محمد سنہ 1981 میں پاکستان علاج کے لیے آئے تو تب وہ وہ یہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ڈاکٹر فاؤ نہیں ہوتیں تو وہ اور اُن جیسے بے شمار جذام کے مریض کسی جنگل یا ویران جزیرے میں پڑے ہوتے۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ کے ساتھی یاد کرتے ہیں کہ ایک بار کسی نے اُن سے کہا کہ آپ نے جذام کے خاتمے کے لیے اتنا کام کیا لیکن آپ کو بہت زیادہ لوگ نہیں جانتے۔ تو روتھ فاؤ نے جواب دیا کہ میں وہاں کام کرتی ہوں جہاں کوئی نہیں جاتا اِسی لیے مجھے زیادہ لوگ نہیں جانتے۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان سے جذام کے خاتمے کا سہرا ڈاکٹر روتھ فاؤ کے ہی سر ہے۔ انھوں نے زندگی کی پانچ دہائیاں پاکستان میں جذام کے خاتمے کی جنگ لڑتے ہوئے گزار دیں۔
ڈاکٹر فاؤ کہا کرتی تھیں کہ اُن کی پیدائش کا ملک بےشک جرمنی ہے لیکن دل کا ملک پاکستان ہے اور اُن کا دل صرف پاکستان کے لیے ہی دھڑکتا ہے۔