زیب بنگش اور شمالی افغان نے مل کر افغان ثقافت کے روائتی گیتوں پر مبنی ایک البم ’لو لیٹر ٹو افغانستان‘ ریلیز
افغانستان: افغانستان میں بیس برس کی جنگ اور طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد وہاں کے حالات یکسر تبدیل ہو گئے ہیں
ایسے میں پاکستانی گلوکارہ زیب بنگش اور کینیڈا میں مقیم افغان نژاد گلوکار شمالی افغان نے اپنی موسیقی کے ذریعے افغان عوام سے اظہار یکجہتی، محبت اور ہمدردی کا پیغام دینے کی ایک کوشش کی ہے۔
زیب بنگش اور شمالی افغان نے مل کر افغان ثقافت کے روائتی گیتوں پر مبنی ایک البم ’لو لیٹر ٹو افغانستان‘ ریلیز کی ہے۔
اس البم میں زیب بنگش اور شمالی افغان نے افغانستان کے مشہور موسیقاروں کے پشتو اور دری زبان میں گائے گئے مقبول گیتوں کو پیش کیا ہے۔
ان گیتوں کو رواں برس جنوری میں ریکارڈ کیا گیا تھا لیکن حالیہ مہینوں میں افغانستان کی بدلتی صورتحال کے پیش نظر انھیں اب ریلیز کیا گیا ہے۔
دونوں فنکاروں کا کہنا ہے کہ ’یہ افغان عوام کی دہائیوں کی قربانیوں اور مشکلات کو ایک خراج تحسین ہے۔‘
اس سلسلے میں بی بی سی کے لیے مکرم کلیم نے زیب بنگش اور شمالی افغان سے ان کے اس مشترکہ پراجیکٹ کے مرکزی خیال، البم میں شامل کیے گئے گیتوں کی اہمیت اور افغان ثقافت سے متعلق ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے۔
شمالی افغان کا اس کور البم کے متعلق بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ یہ گیت افغانستان کی موجودہ صورتحال کے نام کرتے ہیں۔
’میں نے ان گیتوں کو افغانستان کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سُنا تو بہت جذباتی ہو گیا یہ گیت کابل اور افغانستان کی
موجودہ صورتحال کے لیے ایک نذرانہ ہیں۔
شمالی افغان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں جو کچھ بھی ہوا اس پر وہ زیادہ بات نہیں کر سکتے لیکن ایک موسیقار اور گلوگار کی حیثیت سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ’جو میں کر سکتا تھا وہ یہ تھا کہ میں دنیا بھر میں موجود افغان شہریوں کے لیے گانے پیش کروں تاکہ وہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ہیں اس سے لطف اندوز ہوں۔‘
پاکستانی گلوکارہ زیب بنگش کہتی ہیں کہ ’میں نے بچپن میں اپنے گھر میں ہمیشہ سے افغان میوزک سُنا۔ افغان موسیقی ایسے ہے جیسے یہ میرے گھر کی موسیقی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ افغان زبان میں گائے گئے تمام گیت ’پیمونا، بی بی صنم‘ میں نے پہلی مرتبہ ایک افغان موسیقی کے استاد شاہ ولی کے ذریعے ہی سُنے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ شمالی افغان استاد شاہ ولی کے بیٹے ہیں۔ استاد شاہ ولی کا ان کے گھر میں ایک خاندان کے فرد کی حیثیت سے مقام تھا۔
یہ بھی پڑ ھیں : طالبان نے افغانستان کے شمالی صوبے بدخشاں کے ضلع کوہستان پر قبضہ کر لیا
زیب کہتی ہیں کہ وہ بہت عرصے سے شمالی افغان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش مند تھی لیکن بدقسمتی سے کوئی ایسا موقع ہی حاصل نہیں ہو پا رہا تھا۔
زیب نے مزید بتایا کہ کورونا کی وبا کے دوران شمالی افغان کا پاکستان آنا ہوا اور رواں برس جنوری میں انھوں نے مل کر افغان ثقافت کو اجاگر کرنے اور خطے میں افغان موسیقاروں کی خدمات کو سراہانے کے لیے اس پراجیکٹ پر کام کیا۔
زیب بنگش کا کہنا ہے کہ ’ہم نے فیصلہ کیا کہ افغانستان کی موسیقی کے پرانے استادوں کی ایک ایک چیز پکڑ کر ہم اسے پیش کریں گے تاکہ دنیا کو یہ سمجھ آ سکے کہ موسیقی میں افغانستان کا کیا کردار رہا ہے۔‘
وہ اس پراجیکٹ کے دوران پیش آئے واقعات کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’شمالی افغان سے ملاقات اور پراجیکٹ پر بات کے بعد میں نے لاہور میں اپنے دوستوں سے اس بارے میں بات کی جس کے بعد ایک ہفتے میں ہم نے تین گیتوں کو ریکارڈ اور ویڈیوز کو شوٹ کیا۔‘
ایک ایسا پراجیکٹ تھا جس پر کام کے دوران ہم سب خوش تھے۔ اس کا نہ ہمارے پاس کوئی ریلیزنگ پلان تھا، نہ کوئی سپانسر تھا۔ ہمیں نہیں پتا تھا کہ اس کام کا کیا بنے گا۔ بس سب دل سے کام کر رہے تھے اور خوش تھے۔‘
ایک فنکار کی حیثیت سے وہ افغانستان کی صورتحال کو کیسے دیکھتی ہیں، اس سوال پر زیب بنگش کا کہنا تھا کہ ’میرا اس پر ایک بہت مخصوص نظریہ ہے کہ جب ہم کسی تنازع یا لڑائی والی جگہ کے متعلق بات کرتے ہیں تو ایک طرف جہاں ان لوگوں کی فکر کے لیے ہوتی ہیں وہی دوسری طرف لوگ اس بارے میں زیادہ بات سے تکلیف میں چلے جاتے ہیں اور وہ افراد خود بھی ایک تنازع ہی بن جاتے ہیں۔ یہ بات ہمیشہ مجھے تکلیف دیتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایسے میں ان لوگوں سے ان کی ثقافت کے ذریعے ایک تعلق بنانے کی ضرورت ہے۔
زیب بنگش کا کہنا تھا کہ ’ہم کسی بھی مسئلے یا تنازع میں گھرے افراد کی اصل خوبصورتی کو سمجھ نہیں پاتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرا ہمیشہ سے روایتی یا لوک موسیقی کی طرف رحجان اسی لیے رہا کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ کسی بھی خطے کے لوگوں کو اصل میں سمجھنے اور ان سے ایک تعلق جوڑنے کے لیے اس موسیقی میں بہت وسعت ہوتی ہے۔‘
’میں نے ذاتی حیثیت میں افغان ثقافت، افغان عوام اور وہاں کے موسیقی کے استادوں سے اتنا کچھ پایا ہے کہ یہ سُن کر مجھے بہت تکلیف ہوئی اور ہم اس بارے میں دعا ہی کر سکتے ہیں۔ اور جس طرح ممکن ہو سکے اس ثقافتی تعلق کو ختم نہ ہونے دیں۔‘
زیب نے یہ بھی کہا کہ افغان قوم بہت خوددار اور پیار کرنے والے لوگ ہیں۔
’میں مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی لیکن میں دعا کرتی ہوں کہ میں ان کی خوشی دیکھ سکوں۔ ہم نے بہت برسوں تک ان کی تکالیف کو دیکھا ہے۔